جیسے ہی وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سے فیصل آباد تک موٹروے انجوائے کرتا ہوا،تاریخی حیثیٰت کی حامل دھرتی جھنگ کی حدود مٰیں داخل ہوا تو فورا پتہ چل گیاکہ تھل دھرتی میں ہوں ،اجڑی ہوئی حالت ،وہی ٹوٹ پھوٹ کاشکار سٹرکیں اور ترقی سے محروم لوگوں کے چہرے اس بات کی چغلی کررہے تھے کہ ان کا کوئی ولی وارث نہیں ہے ۔ انکی زندگی اپنے سہارے اور اپنی محنت کے بل بوتے پر چل تو رہی ہے لیکن وہ بات نہیں ہے جوکہ ان کا حق تھا ۔ 71 سال میں حکومت نام کی کوئی چیز ان کے قریب سے نہیں گزری ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جھنگ کے اپنے عوامی نمائندے جوکہ اسلام آباد اورلہور مٰیں وزیر ،مشیر ہونے کے باوجود اپنے حلقہ کے عوام کی زندگی بدلنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں ۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مستقبل قریب میں بھی کوئی امید نہیں ہے کہ کہ جھنگ سمیت تھل کے عوام کی زندگیوں میں وہ تبدیلی دیکھنے کو ملے گی جوکہ لہور سے لیکر ملتان تک دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ یاد رہے کہ فیصل آباد ایک وقت میں جھنگ کی تحصیل تھا لیکن اب جھنگ ترقی کے حساب میں فیصل آباد کا قصبہ بھی نہیں لگتاہے ۔ اعتراض فیصل آباد کی ترقی پر نہیں ہے لیکن اس بات پر دکھ ضرور ہے کہ جھنگ جیسی عظیم دھرتی کو فیصل آباد کیساتھ جڑے ہونے کے باوجود وہ خوشحالی اور ترقی نہیں دی گئی جس کا وہ حقدار تھا ۔ برطانوی راج کے دوران گورنر پنجاب سر جمیز براڈ ووڈ لائل کے نام سے آباد شہر لائل پور جوکہ اب فیصل آباد کے نام سے پہچان پا چکا ہے ، اس میں تھوڑی دیر گھومنے کا موقعہ ملا، اچھا لگاکہ فیصل آباد کے عوام کو زندگی کو بہتر انداز مٰیں گزارنے کے مواقع ہیں ۔ اپنی فیصل آباد کی آوارہ گردی کی تصاویر جوکہ گھنٹہ گھر سمیت لائل پور کی تاریخی عمارتوں کے آپس پاس تھیں جیسے ہی فیس بک پر اپ لوڈ کیں تو ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو طارق نیازی کی فورا کال آگئی ، وہی گلہ تھا ، جس کا مجھے اندازہ تھاکہ موصوف کو فیصل آباد ہونے کے باوجود کال نہ کرنے پر ہوسکتاہے ۔ طارق خان سے بہاءوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے ابوبکر ہال سے لیکر کمیپس سے جڑی یادوں کا ایک دیرنیہ محبتوں بھرا تعلق ہے، ہمارے اس تعلق میں وزیر اقبال نیازی کا اہم کردار ہے جوکہ آجکل ملتان ہائی کورٹ میں اٹارنی جنرل کی حیثٰت میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ دلچسپ بات ہے کہ وزیراقبال نیازی محفل میں ہوتو ہم دوست پھر نہیں ہوتے ہیں کیوں کہ موصوف ایسے گرجتے ہیں اور برستے ہٰیں کہ رہے نام اللہ کا ۔ یوں وزیر کو گھیرنے کیلئے ہم دوست یونیورسٹی دور کی طرح اب بھی پہلے تیاری کرکے بیٹھتے ہیں اور اس کو کہانی میں الجھا لیتے ہیں ۔ بہرحال طارق خان کی ناراضگی بنتی تھی ۔ سچی بات یہ ہے کہ میرا خیال تھاکہ طارق خان مصروف ہوگا، یوں اس کو کال کرنے کی بجائے خود ہی لائل پور کو دیکھ لیاجائے ۔ بہرحال طارق خان نے اپنی ناراضگی کے بعد کہا بھائی جی آپ آرہے ہیں ;238; یا مٰیں آپ کو لے لوں ۔ میں نے کہا میں آرہاہوں ، آپ تکلیف نہ کریں ۔ یوں طارق خان کی مہمان نوازی کے دوران مختلف موضوعات پر گپ شپ ہوئی ، فیصل آباد کی ترقی اور خوشحالی پر خاصی بات ہوئی ۔ بھگت سنگھ سے لیکر احمد خان کھرل جیسے عظیم لوگوں کے بارے میں بھی طارق نیازی نے بات کی،پھر طے ہوا کہ فیصل آباد کو تسلی سے تاریخ کے جھرنکوں سے دیکھا بھی جائے اور اسکو لکھابھی جائے ۔ یوں راقم الحروف کی کوشش ہوگی کہ وقت نکال کے لائل پور سے فیصل آباد تک کی کہانی کو اپنے انداز میں پڑھنے والوں تک پہنچایاجائے ۔ جھنگ سے لیہ کے سفر کے اذیت سے کم یوں نہیں تھاکہ پورے تھل میں حکومتوں کی طرف سے نعروں کا تحفہ مختلف اوقات میں دیاجاتارہاہے لیکن عملی طورپر کوئی ایسا کام نہیں کیاگیاہے کہ تھل کے سات اضلاع خوشاب،میانوالی، بھکر،لیہ، مظفرگڑھ،جھنگ اور چینوٹ کے عوام زندگی کو زندگی کی طرح جی سکتے ۔ لیہ میں داخل ہوئے تو سٹرکوں کی بدترین حالت دیکھ کر دکھ ہوا ۔ کروڑ سے لیہ تک روڈ کی حالت ایک طرف اذیت کا سبب تھی تو دوسری طرف بائی پاس سے کوٹھی قریشی تک ایک روڈ باقاعدہ کھڈوں میں بدل چکاہے ۔ لیکن افسوس ناک صورتحال یوں تھی کہ اس ٹوٹ پھوٹ کاشکار روڈ کی مرمت کیلئے محکمہ ہائی وے سے لیکر ڈپٹی کمشنرلیہ سمیت ارکان اسمبلی کی طرف سے کوئی اقدام نہٰیں اٹھایا گیاہے ۔ یوں لگتاہے کہ ان کی ترحیجات میں کوئی ایسا پروگرام نہیں ہے جوکہ عوام کو ریلیف دے بلکہ اس صورتحال کو انجوائے کیاجارہاہے ۔ لیہ بائی پاس سے کوٹھی قریشی روڈ یوں خاص اہمیت کا حامل ہے کہ یہ کوٹ ادو،ملتان کو لنک کرنے کے علاوہ ڈیرہ غازی خان جوکہ لیہ کا ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر ہے ا س کو ملاتاہے ۔ پھر ایک بڑی آبادی جوکہ ضلعی ہیڈ کوارٹر لیہ آتی جاتی ہے، وہ اس روڈ کی وجہ سے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے ۔ لیہ مٰیں تعینات کیے جانیوالے ڈپٹی کمشنر بابربشیر کے بارے مٰیں صحافی دوستوں اور شہریوں کی رائے یوں اچھی سننے کو نہیں ملی ہے کہ موصوف خوشامدیوں کے ٹولے میں گھر گئے ہٰیں ، شاید ان کو اندازہ نہیں ہے کہ ان کی کارکردگی لیہ کی عوام کی فلاح وبہبود اور ان کی مشکلات کم کرنے میں پوشیدہ ہے ناکہ سیاسی اور شعبدہ بازوں کے شکنجے میں جانے میں ہے ۔ لیہ کے رکن قومی اسمبلی کی طرف سے ڈپٹی کمشنر لیہ کو تحفہ میں دی جانیوالی کار کے چرچے لیہ بھر میں سننے کو ملے اور راقم الحروف کے خیال میں ڈپٹی کمشنر کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کو بحیثیت ڈپٹی کمشنر لیہ ہی یہ تحفہ کیوں دیاگیاہے ;238; کہیں دال مٰیں کچھ کالا تو نہٰیں ہے ;238; یا پھر ساری دال ہی کالی ہے ۔ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی ذاتی محبت میں کاشف بابر کو لیہ کی ڈپٹی کمشنر شپ دی گئی ہے تو بزدار صاحب چیک کریں کہ ان کے لگائے گئے ڈپٹی کمشنر لیہ میں ان کی توقعات کے مطابق کام کررہے ہیں یا پھر کاریگروں نے انہیں گھیر لیاہے اور لیہ کے عوام نظرانداز ہورہے ہیں ۔ تھل کے لوگ پہلے ہی مسائل کا شکار ہیں ،پھر ان کو ایسے ڈپٹی کمشنر دئیے جائینگے تو صورتحال میں بہتری آنے کی بجائے صورتحال خراب ہوگی ۔ اگر صورتحال اس کے برعکس ہے تو ڈپٹی کمشنر لیہ کو وضاحت کرنی چاہیے کہ کار کا معاملہ کیاہے ;238; ایسا ہے تب بھی اور نہیں ہے تب بھی تاکہ ان کا عوام میں امیج متاثر نہ ہو ۔ اسی طرح ایک رجسٹری کلرک کی ویڈیو جوکہ وائرل ہوئی ہے ،نے بھی لیہ میں جاری دھندے سے پردہ اٹھایاہے ۔ اس طرف بھی ڈپٹی کمشنر کی توجہ کی ضرورت ہے وگرنہ ;238; ۔ ادھر پبلک ہیلتھ اینڈ ایجنئنرنگ لیہ کے35 منصوبوں مٰیں عوامی نمائندوں اور افسر شاہی کی کمیشن کی خاطر سات کروڑ روپے کی بچت قومی خزانہ میں جانے سے روک کر اپنی کاروائی سے ہاتھ صاف کرلیے،اس بات کو مقامی میڈیا نے بھی رپورٹ کیاہے کہ ٹھکیداروں کو ٹینڈر میں فل ریٹ دلواکر کاروائی ڈالی گئی ہے ۔ اس بارے میں بھی تحقیقات کی ضرورت ہے ۔ قومی احتساب بیورو ،پنجاب کے صوبائی وزیر جنگلات سردار سبطین تک تو پہنچی ہے لیکن میانوالی سے ایک ضلع چھوڑ کر لیہ میں موجودہ اور سابق ارکان اسمبلی کیخلاف جاری نیب کی تحقیقات ایک مدت سے آگے کیوں نہیں بڑھی ہیں ;238;کہیں منتھلی جیسی کوئی واردات تو احتساب کے راستہ میں روکاوٹ نہیں ہے ;238; چیرمین نیب اس بارے میں چیک کریں کہ آخر جنوبی پنجاب کے کرپٹ اور قومی خزانہ کو نقصان پہنچانے والے اور اپنے اثاثوں میں بے پناہ اضافہ کرنیوالے ارکان اسمبلی کے بارے میں نیب کے لوگ کاروائی کرنے سے کیوں گریزاں ہیں ;238; لیہ میں موجودگی کے دوران لیہ ڈویثرن اور بجٹ مٰیں تھل کو دیئے جانیوالے بجٹ کے بارے مٰیں روزنامہ خبریں کے ڈسٹرکٹ رپورٹر ملک مقبول الہی کی طرف سے فورم مٰیں شرکت کا موقعہ ملا ۔ ارشد اسلم سہیڑ، پروفیسر گل محمد خان،انجم صحرائی ،یعقوب مرزا،عنایت کاشف،سید افتخار شاہ گیلانی،سلطان محمود،منظور بھٹہ، شرافت علی بسرا اور نوازلیگی ایم پی اے اعجاز اچلانہ تھے ۔ خوشی ہوئی کہ لیہ کے مختلف شعبہ زندگی کے لوگ اپنے لیہ کے حقوق کیلئے جدوجہد کررہے ہیں ۔ لیہ ڈویثرن کیلئے عوام میں بڑے پیمانے پر تحریک چلارہے ہیں ،وکلا اور صحافی برادری وہ کام کررہی ہے، جوکہ ان پر لیہ کا قرض ہے ۔ تھل کیساتھ روارکھے گئے سلوک پر لیہ کے لوگ ناراض تھے اور خاص طورپر ان کا خیال تھاکہ لیہ کے ارکان اسمبلی نے نا نمائندگی کا حق پہلے ادا کیاہے اور نہ ہی اب کررہے ہیں ۔ ان کا ایجنڈا اپنی ذات تک محدود ہے ۔ عثمان بزدار کے دور مٰیں بھی لہور سے تھل کیلئے منصوبے نہیں دیئے جارہے ہیں ،لولی پاپ چل رہاہے ۔ فورم میں راقم الحروف کیلئے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ جب لیگی ایم پی اے اعجاز اچلانہ نے اس بات کا اعتراف کیاکہ لیہ ضلعی ہسپتال تحصیل ہیڈکوارٹر میں کام کررہاہے،اور موصوف صوبائی وزیر اور طویل عرصہ تک اقتدار میں ہونے کے باوجود ضلعی ہسپتال لیہ کو الاٹ کردہ زمین پر تعمیر کروانے میں ناکام رہے ہیں ۔ یوں لیہ ضلعی ہسپتال تحصیل ہیڈکوارٹر مٰیں کام کررہاہے ۔ جس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ لیہ کے عوام کو تحصیل ہیڈ کوارٹر میں کام کرنیوالے ضلعی ہسپتال مٰیں کیا سہولتیں مل رہی ہونگی;238; اسی لیہ میں نوازلیگی دور میں زہریلی مٹھائی کھانے سے فتح پور کے 32بچوں کی ضلعی ہسپتال لیہ میں معدہ صاف کرنے سہولت نہ ہونے کی وجہ سے جان چلی گئی تھی لیکن نوازلیگی قیادت نے اس باوجود تکلیف نہیں کی تھی کہ ضلعی ہپستال لیہ کیلئے الاٹ زمین کو تلاش کرلیتے اور سہولتوں سے آراستہ ہسپتال لیہ کے عوام کو دیتے ۔ ممکن ہوتو لیہ کے ڈپٹی کمشنر اس بارے مٰیں بھی وضاحت کریں کہ وہ ضلعی ہسپتال لیہ کی زمین کہاں گئی ہے ;238; موجود بھی ہے یا پھر افسر شاہی اور لیہ کی سیاسی لیڈرشپ اس پر ہاتھ صاف کرچکی ہے ۔ درست ہے میں تو اسلام آباد لوٹ آیا ہوں ،روشینوں سے لیکر سب کچھ ہے لیکن اپنے لیہ کے عوام کی اذیت میں میں گزرتی زندگی کے لمحات کا خیال ہے کہ دل سے جاتا نہیں ہے ۔ مستقبل قریب میں امید بھی نہیں ہے کہ تھل بالخصوص لیہ کی عوام کی زندگیوں میں تبدیلی آئے گی ;238;کب یہ لوگ اپنی زندگی جی سکیں گے ;238; کب ان کے عوامی نمائندے ان کیلئے اسمبلیوں حقوق مانگیں گے;238; کب ان کو کھڈوں والی سٹرکوں کی بجائے موٹروے پر سفر کرنے کا موقعہ ملے گا ;238;کب ان کو ایسے افسران ملینگے جوکہ ان کے خادم کی حیثیت مٰیں کام کرینگے ناکہ کرپٹ سیاسی ٹولے کے آلہ کار بن کر ان کی زندگی کو اجیرن کرینگے اور دھندے پر لگ جائینگے ۔