8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے ویسے تو یہ دن 1908 سے منایا جا رہا ہے مگر 1977سے باقاعدہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام یہ دن منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے تحفظ ، در پیش مسائل مشکلات اور ان کے حل کے حوالے سے سیمنارز ، ریلیاں اور پروگرامز منعقد ہوتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں بھی خواتین کا عالمی دن انتہائی جوش اور جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔ اپنے اپنے شعبے میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ اور صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے مختلف فورمز سے آواز بلند کی جاتی ہے۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے ایک مخصوص طبقے نے خواتین کے دن کو کچھ اس انداز سے متنازع کر دیا ہے کہ عالمی یوم خواتین کا نام سامنے آتے ہی ایک غلط تاثر سامنے آجاتا ہے درحقیقت اس میں ہر دو طبقے کی انتہاء پسندی شامل ہے خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بات کرنے والی این جی اوز جو انہی دنوں متحرک ہوتی ہیں وہ تمام حدود و قیود چھوڑ کر عورت کو سر بازار تماشہ بنانے پر تلی ہوئی ہیں اور دوسری طرف وہ طبقہ جو صرف انہی چند خواتین کے بیانیے کو جواز بنا کر خواتین کا دن مناۓ جانے کی مخالفت کرتا ہے۔
اس کی خاص وجہ گزشتہ سال یوم خواتین کے موقع پر نکالی جانے والی وہ ریلی ہے جس میں کچھ اس طرح کے زومعنی پلے کارڈ لہرائے گئے اور نعرے لگاۓ گئے کہ ایک شریف انسان فیملی کے سامنے ڈسکس بھی نہیں کر سکتا مگر حیرت ہے وہ مخصوص طبقہ آج بھی اپنے اس نعرے پر قائم ہے اور اس حوالے سے مختلف تاویلیں بھی پیش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے ہائی کورٹ نے ایک درخواست کے بعد عورت مارچ کے حوالے سے باقاعدہ ھدایت جاری کی کہ” آئین پاکستان میں ہر شخص کو انجمن سازی کی آزادی حاصل ہے عورت مارچ کے منتظمین بھی بد اخلاقی اور نفرت انگیزی سے بعض رہیں”
مگر شاید ہماری سوسائٹی میں در آنے والی شدت پسندی کسی ایک طبقے تک محدود نہیں بلکہ پورا معاشرہ اور ہر طبقہ اس شدت پسندی سے دو چار ہے جو جہاں کھڑا ہے وہ خود کو درست اور دوسرے کو غلط قرار دیتا ہے اس کی ایک افسوسناک مثال گزشتہ روز ایک لائیو ٹی وی شو کے دوران دیکھنے کو ملی جب ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر اور خواتین کے حقوق کا نعرہ لگانے والی ماروی سرمد کے درمیان انتہائی تلخ اور غیر اخلاقی جملوں کا تبادلہ ہوا جس نے ہمارے معاشرے کی دو انتہاؤں کا پردہ چاک کر دیا۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف انتہائی غلط اور غیر اخلاقی زبان استعمال کی جا رہی ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ لبرل ازم کے نام پر اخلاقیات کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی مگر اس کی آڑ میں لائیو ٹی وی شو میں ایک عورت کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی اور جو لب و لہجہ استمال کیا گیا اس کی حمایت بھی نہیں کی جاسکتی یقینا باحثیت قوم ہمیں اپنے اجتمائی رویے پر غور کرنا ہوگا۔
در حقیقت آج ہمارا معاشرہ جس زبوں حالی کا شکار ہے اس کی ایک اہم وجہ اسلام کی تعلیمات سے دوری ہے اگر ہم دین اسلام اور آقا حضور ﷺ کے فرمودات کو سامنے رکھ کر زندگی گزاریں تو میرا نہیں خیال کہ ہمیں اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ دین اسلام نے 14 سو سال پہلے خواتین کو وہ حقوق دیے کہ دنیا آج بھی نہیں دے سکی ۔ وراثت میں خواتین کو باقاعدہ حصہ دینے کے علاوہ خواتین کے احترام کی اس سے بڑھ کر مثال کیا ہو گی کہ آقا حضور ﷺ اپنی رضائی بہن کی آمد پر بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے تھے اور پھر تاریخ اسلام خواتین کی جدوجہد امور مملکت ، حرب اور بقائے اسلام کے لیے قربانیوں سے عبارت ہے اور پھر دین اسلام نے خوبصورت رشتوں میں پرو کر خواتین کو وہ تحفظ فراہم کیا کہ کسی بھی مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ماں کے روپ میں اس کے قدموں تلے جنت ، بیٹی کے روپ میں رحمت ، بہن کے روپ میں سراپا شفقت اور بیوی کے روپ میں پیار اور محبت کی عملی صورت ہے ۔
اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ خواتین کو ہر شعبے میں نہ صرف صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ہر جگہ مختلف انداز میں جنسی ہراسمنٹ سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے مگر کیا اس کا صرف یہی حل ہے کہ ” میرا جسم میری مرضی ” کا اشتہار بن کر سڑکوں پر نعرے لگائے جائیں۔۔؟ گوکہ عورت مارچ کے منتظمین اس نعرے کو وسیع تناظر میں ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن معاشرے اگر صرف مرضیوں سے چلنا شروع ہو جائیں تو پھر آئین قانون اور اخلاقیات کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی اور ہر طرف جنگل راج شروع ہو جاتا ہے ہر سوسائٹی اپنے کچھ اصول اور اخلاقی تقاضاے ہوتے ہیں جنہیں ہرگز پامال نہیں کیا جا سکتا اس کے باوجود اگر آپ باضد ہیں تو "آپ کی سوچ آپ کی مرضی” مگر کیا اس مرضی کو 12 کروڑ خواتین پر لاگو کیا جاسکتا ہے جن کے مسائل عورت مارچ میں لگاۓ جانے والے نعروں سے کہیں مختلف ہیں ۔ حالانکہ اگر ” میرا جسم میری مرضی "کے زومعنی نعرے میں اگر کوئی خاص مقاصد پوشیدہ نہیں تو اس محدود نعرے کے بجاۓ ایک وسیع البنیاد اور پر اثر نعرہ بھی بلند کیا جاسکتا تھا کہ ” میری زندگی میری مرضی ” اس نعرے پر نہ تو کسی کو اعتراض ہوتا نہ ہی اس طرح مخالفت ہوتی بلکہ اسے سراہا جاتا اور اس کی حمایت بھی کی جاتی مگر نظر آنے والے ہر مقصد کے پیچھے کئی مقاصد ہوتے ہیں##
مظہر اقبال کھوکھر
03007785530
mkhokhar433@gmail.com