خدا کبھی اس قوم کی تقدیر نہیں بدلتا جب تک وہ خود کوشش نہ کرے”یہ ایک آزمودہ نسخہ ہے (قرآن مجید فرقان حمید میں خود خدا لمیزل نے انسان کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ محنت کرتا رہے گا تو کامیاب رہے گا اگر اس نے تھوڑا سا بھی محنت سے جی چرایا تو ناکامیوں اور پستیوں کی دلدل میں پھنس جائے گا) چنانچہ اس چھوٹے سے فقرے میں قوموں کا بلکہ نسلوں کا تجربہ جمع ہے_ تاریخ گواہ ہے جن لوگوں نے اس نسخہ سے ذرا ہٹ کر کام کیا ان کا انجام بازار میں بکنے والے سفید جسم کی مانند ہوا_ دور جدید کی ٹیکنالوجی نے نہ صرف ہماری نسل نو کا شیرازہ بکھیر دیا ہے بلکہ تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے_
جی ہاں موبائل فون، جو واقعتاً اچھی چیز ہے لیکن ہماری نوجوان نسل کے نہ صرف نظریات، احساسات اور طرزِ زندگی بدل دیا ہے_ بلکہ اس نے دماغی کو ختم کر دیا ہے_ اس کے استعمال سے نہ صرف یاداشت، نظر کی کمزوری، بلڈ پریشر، تبخیر معدہ بلکہ سب سے بڑھ کر معاشرتی برائیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ آج کا نوجوان سارا سارا دن موبائل فون سے ایسا چپکا رہتا ہے جیسے چھپکلی دیوار سے۔ میسجز اور انٹرنیٹ کے استعمال میں اتنا مصروف رہتا ہے کہ انہیں روٹی تک یاد نہیں رہتی۔ اس سے بڑھ کر جو اس کا بڑا نقصان وہ یہ ہے کہ بہت معزز خاندانوں اور عظیم ماں باپ کے عزت کے جنازے اٹھے ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سی بہینں اور بیٹیاں بےراہ روی کا شکار ہوئی اور ہو رہی ہیں۔ یہ موبائل فون کی کرم نوازی تھی کہ ہندوستان کی لڑکی نے پاکستان آ کر صوبہ پنجاب کے پسماندہ ضلع لیہ کے ایک نوجوان سے شادی کی۔ بظاہر تو پاکستانیوں کی فتح ہوئی لیکن ان ماں باپ پر کیا بیتی جس نے اس حوا کی بیٹی کو جنم دیا۔
ایک بڑی لعنت جو اس کی وجہ سے بڑھ رہی ہے وہ یہ کہ نوجوان نسل کانوں میںhand free لگا کر گانوں کی دھنوں پر جھومتے رہتے ہیں اس سے نہ صرف قوت سماعت کم ہو جاتی ہے بلکہ ان کے سوچنے کی صلاحیت اور قوت ارادی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ بات سائنس سے ثابت شدہ ہے کہ ہر وقت شور انسان میں الجھن اور بلڈ پریشر کی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ سورت لقمان میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔ ” اور لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو ان چیزوں کو خریدتے ہیں جو غافل کرنے والی ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کے راستے سے بے سمجھے بوجھے گمراہ کرے اور اس کا مذاق اڑاۓ ،ایسے لوگوں کیلئے ذلت کا عذاب ہے” اب تو نہ صرف یونیورسٹی، کالجز بلکہ سکول کے طلبہ وطالبات بھی اس کی دلدل میں پھنس چکے ہیں اور اپنے مستقبل سے ناواقف وناآشنا ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے سیر کرنے والے گلشن حال کے اور دور بین لگانے والے ماضی و استقبال کے بتاتے ہیں کہ اگر یہی حال رہا تو وہ وقت قریب ہے جب نئی نسل بےراہ روی کا شکار ہو جاۓگی بلکہ غلامی کے چنگل میں پھنس جائے گی۔
اس کے علاواہ ایک Mobile Application جیسے What’s app orMassage or Massager کے نام سے جانا جاتا ہے رہی سہی کسر اس نے پوری کردی ہے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بہت تیزی سے ایسے بہودہ پیغام کو عام کر رہے ہیں کہ صحیح مسلمان ان کو دیکھ کر شرم کی وجہ سے سر پیٹ لیتا ہے اس کے علاواہ جھوٹ، عریانی، فحاشی اور بے راہ روی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے موبائل فون کے ان Applications نے محبت نامے اور عشیقہ خطوط کے نظام کو سستا کر دیا ہے، اب لڑکے اور لڑکیوں
کا اپنا فون ہے جسے مہینوں بھی ان کا باپ اور بھائی چیک نہیں کرتے اور اسکولوں اور کوچنگ سینٹر میں پڑھنے والی لڑکیاں اور لڑکے اپنے دوستوں احباب اور عشاق کے کے ساتھ باآسانی ہر وقت یہاں تک کہ رات گئے بھی "دل کی باتیں” کہہ اور سن سکتی ہیں اس سے نہ صرف رشتوں میں نفاق بلکہ وقت اور پیسہ کا بھی ضیاع ہے جو کہ حرام ہے۔ خدارا غفلت سے نکلیں اور اپنے دین و ایمان و دنیا اور آخرت کو ضائع کرنے سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔
آج Facebook, Instagram,wtiter نئی بیماریاں آ چکی ہیں جس سے نہ صرف پیسے اور وقت کا نقصان ہے بلکہ نوجوان نسل کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اس سے نہ صرف اخلاقیات کے آٹھ رہے ہیں بلکہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں جنسی رسومات کا رواج بڑھ رہا ہے اس طرح کے تعلقات قائم کرنے سے نہ صرف بہت سے گھر اجڑے ہیں بلکہ بہت سی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ موبائل فون بھی معاشرتی دہشت گردی کی ایک قسم ہے۔
موبائل فون کا انسانیت سوز ایک واقع یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ ڈرائیونگ کے دوران اس کا استعمال ہے ویسے ڈرائیونگ کے دوران فون کا استعمال قانوناً جرم ہے اور شرعاً بھی صحیح نہیں ہے اس سے موبائل فون لاکھوں قیمتی جانوں کا نذرانہ وصول کر چکا ہے۔ نوجوان نسل میں خودکشی اور جذبات کے مجروح ہونے میں ایک بڑا ہاتھ موبائل فون کا بھی ہے اس کے غلط استعمال سے اور چکر میں آ کر لاکھوں بہنیں اور بیٹیاں عزت داؤں پہ لگا بیٹھی ہیں اور نتیجا خودکشی بنا جو لمحہ فکریہ ہے۔
قومی خزانہ کے خالی ہو نے اور معشیت کی تباہی میں بڑا ہاتھ یہی موبائل فون ہی ہے کیونکہ اس کے درآمدات برآمدات کی آڑ میں آ کر لاکھوں روپیے بیرونی ممالک چلے جاتے ہیں۔ مثلاً ہماری آبادی 20 کروڑ ہو تو 15 کروڑ کا ذخیرہ پاکستان میں ہے یہ 15 کروڑ موبائل فون اپنے ملک Products تو نہیں ہیں یہ مہنگے مہنگے موبائل فون فرض کریں ایک موبائل 5000 ہزار کا ہے تو75 ارب روپے وطن عزیز کے بیرون ممالک چلے جاتے ہیں تو یہ معاشی دہشت گردی کی ایک قسم ہے۔
فرض کریں ہر ایک موبائل فون میں ایک سم ہو تو 15 کروڑ سمیں چل رہی ہیں ان سمز کا موجد پاکستان تو نہیں ہے اگر ایک سم کی قیمت 100 روپے ہو تو1.5 ارب کا ڈاکہ بیرونی کمپنیاں ڈال جاتی ہیں اگر اتنی بڑی رقم باہر چلی جائے اور باہر سے دھلی تک نہ آئے تو پھر اس ملک میں غربت اور افلاس ڈیرہ نہ تو پھر کیا ہو۔یہ تو صرف موبائل فون اور سمز کا حساب ہے اس میںload,handfree, memory cards, casings,etc… بھی تو استعمال ہوتے ہیں اس میں بھی اربوں روپے گل ہوتے ہیں اگر ایسا ہوتا رہے گا تو پھر گردشی قرضے بھی چڑھے گے اور حاکم قوم محکوم نہیں بنے تو اور کیا ہو گا۔پھر بےروزگاری بھی بڑھے گی اور اور دہشت گردی بھی انتہا کو ہو گی ۔ ایک بے چارہ غریب جو 400 روپے روزانہ کماتا ہے ان میں سے اگر وہ 200 موبائل فون کے اخراجات پہ لگا دے تو پھر گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔
پچھلے 20,25 سال سے دہشت گردی پاکستان کے لیے نسور بن کر رہ گئی ہے وجہ کیا ہے؟ آپ سوچے اور اپنے حافظہ کو20,25 سال پیچھے لے جیے تو پتہ چلے گا کہ موبائل فون کی ایجاد بھی تو اتنی ہی پرانی ہے۔اب بھی اسی بات پہ آس لگائے رکھنا کہ کوئی بیرونی امداد آۓ گی اور ملک کی حالت بہتر ہو گی تو یہ نہ صرف کم عقلی ہو گی بلکہ ملک و قوم کو دوسروں کے گروی رکھنے کے برابر ہو گا اس طرح چلتا رہا تو نہ صرف ملک و قوم کی عزت و توقیر جاتی رہے گی بلکہ خطرہ ہے کہ اس کا نام و نشان نہ مٹ جائے ( اللہ نہ کرے)
تخریب کاری جو پاکستان کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے اس سے نہ صرف حکمران وملک کے محافظ بلکہ قوم خود پریشان ہے اس کے پیچھے بڑا ہاتھ موبائل فون اور سمز کا ہے۔دوسری طرف معزز گھرانوں کی بیٹیاں اور بیٹے بے راہ روی اور الجھن کا شکار ہیں اور غلط اقدام اٹھا رہے ہیں اور خودکشی اور برداشت کا مادہ ختم ہو گیا ہے وجہ موبائل فون ہے؟ قابل تعظیم ماں باپ زمانے کا تماشا بن چکے ہیں وجہ موبائل فون؟ تو میں حکومت وقت سے مؤدبانہ التماس کرتا ہوں کہ جہاں دوسرے مسائل پر قانون سازی کی جا رہی ہے تو اس پر بھی ضرور ہونی چاہیے یا کوئی پالیسی مرتب کی جاۓ۔ یا پھر سرے سے موبائل فون ختم کر دے۔”نہ ہو بانس نہ بجے بانسری” یا پھر رجسٹریشن کے قوانین کو PTA اور مزید سخت کرے ۔ یا پھر جگہ جگہP.C.O سسٹمز متعارف کرایا جائے تاکہ جس کو بھی ضرورت پڑے استعمال کر لے اس طرح وقت کی بھی بچت ہو گی اور ملک کا پیسہ ملک میں رہے گا اور اپنے انجنیئر کوئی نئی ٹیکنالوجی بھی متعارف کرواۓ گے بجائے اس کے کہ ملک کے یہ مستقبل اور معمار سارا دن کام کی بجائے موبائل فون پر جھومتے اور پیکجز لگا کر اپنا مستقبل اپنے آج پر قربان کر بیٹھے۔