لاہور ۔ منشیات برآمدگی کیس میں رانا ثنا اللہ پر آج بھی فرد جرم عائد نہ ہو سکی۔ پراسیکیوٹر کی عدم موجودگی کے باعث سماعت 19 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔
انسداد منشیات کی خصوصی عدالت نے مقدمے کے شریک ملزمان کی بریت کی درخواستوں پر دلائل طلب کر رکھے تھے۔ انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے جج نعیم شیخ کیس کی سماعت کی۔ رانا ثنااللہ سمیت چھے ملزمان عدالت پیش ہوئے۔ رانا ثنا اللہ کے ہمراہ تین ملزمان کے وکیل جواد ظفر دلائل مکمل کر چکے ہیں۔ عدالت نے پراسیکیوشن کو دلائل کے لیے دوبارہ طلب کر لیا۔
عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوے مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا کہ حکومت نے ججز کو باتھ روم جیسےکمروں میں بٹھایا ہوا ہے۔ ساڑھےتین سال سےحکومت کی صرف گھٹیا انتقام کی پالیسی ہے۔ حکومت کی تمام تر توجہ ن لیگ کی قیادت کے خلاف جھوٹےمقدمات بنانے میں ہے۔ شہزاد اکبر روز ججز پر دباؤ بڑھانے کیلئے پریس کانفرنسز کر رہے ہیں۔ فروغ نسیم بڑے پرانے طاغوتی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ جب لاہور میں دہشتگردی کا واقعہ پیش آیا تو وزیراعظم کیا کر رہا تھا؟ پوری قوم بحرانی کیفیت میں ہے۔ لاہور میں دھماکے کے وقت عمران خان وزیراعظم ہاؤس میں گالی گلوچ بریگیڈ کو لیکر بیٹھا تھا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ قوانین میں ترامیم لائی جا رہی ہیں۔ حکومت کےحساب کا وقت آ گیا۔ 73 کا آئین متفقہ آئین ہے جس پر چاروں اکائیاں متفق ہیں۔ 35 سال صدارتی نظام رہا۔ ملک کا مسئلہ یہ نہیں کہ کونسا نظام ہو بلکہ آئین پر عملداری نہ ہونا ملک کا مسئلہ ہے۔
رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ شیخ رشید کی کوئی حیثیت نہیں۔ شیخ رشید نواز شریف کی خوش آمد کر کے سیاست میں آئے ہیں۔ شیخ رشید وہ انسان ہیں جو نواز شریف کے بوسے لیتے تھے۔ شیخ رشید کسی سیاسی گھرانے سے نہیں۔ نواز شریف ضرور وطن واپس آئیں گے۔ شیخ رشید کو نواز شریف کی واپسی کیلئے زیادہ فکرمند نہیں ہونا چاہیے۔