اسلام نے ایک بہترین معاشرتی نظام متعین کیا ہے ۔اور اسکی بنیاد فرد کے حقوق و فرائض پر رکھی ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مذہب اسلام مذہب انسانیت ہے ذرا سوچیں جس مذہب میں انسانوں کے ساتھ جانوروں اور جانداروں کے بھی حقوق ہوں وہ کتنا اعلی و ارفع مذہب ہوگا۔رشتوں کی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے انکے حقوق و فرائض متعین کیے اور ایک اعلی معاشرے کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔عورت کو اس کا اصل مقام دیا بطور ماں اس کے قدموں میں جنت رکھی ۔بیٹی کو رحمت بیٹے کو نعمت قرار دیا ۔باپ کی ناراضی کو رب کی ناراضی کہا گیا ۔یتیم ‛مسکین ‛کے حقوق مقرر کیے تاکہ ان کی ناداری کا سدباب ہو سکے ۔پڑوسی کے حقوق کہ اپنی گھر کی کی دیوار بھی اس کے گھر سے اونچی نہ کرو مبادا اس کے گھر آنے والی ہوا نہ رک جائے ۔غلاموں کے بارے میں ارشاد ہوا یہ تمہارے بھائی ہیں ۔مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا ۔الغرض کونسا ایسا سبق تھا جو کتاب ہدی میں نہ ہو کون سا ایسا معاملہ جس کا حل نہ ہو مگر افسوس ہم مادی طور پر تو ترقی کی راہ کے ہم قدم تو ہو گئے مگر اخلاقی کردار کو کہیں پیچھے چھوڑتے چلے گئے ۔رواداری اور انسانیت کے احترام کو فرسودہ قرار دیا دے کر اس سے چشم پوشی اختیار کر لی یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرتی نظام کا آوے کا آوا بگڑتا چلا گیا۔اور ایسے مسائل نے جنم لیا جس نے خوبصورت معاشرے کا چہرہ داغدار کر دیا ۔
افرادی قوت ملکی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے ۔مزدور اور کام کرنے والے لوگ ہماری زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ہم ان کے بغیر نامکمل ہیں ۔ مگر آقا اور غلام کا قدیم تصور تب سامنے آیا جب مزدور طبقے کا جائزہ لیا گیا انسانی حقوق کے رضاکار کا کہنا ہے کہ مختلف انڈسٹریز میں لاکھوں مزدوروں کو روز مرہ کے تشدد جیسے جنسی ہراساں، واش روم کا وقفہ نہ دینا وغیرہ کا سامنا ہے۔
انسانی حقوق کے نگہداشت ادارے ہیومن رائٹس (ایچ آر ڈبلیو) کی رپوٹ میں بتایا گیا کہ خطرناک آتشزدگی اور احتجاج کے بعد کئی اصلاحات عمل میں آئیں تاہم ملک میں 1 کروڑ 50 لاکھ مزدور اب بھی انتہائی بری حالت میں کام کرنے پر مجبور ہیں اور انہیں ایک جگہ اکٹھے ہونے پربھی دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔
ایچ آر ڈبلیو ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے اپنے بیان میں کہا کہ ’حکومت ملک میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کو عرصہ دراز سے نظر انداز کرتی آرہی ہے‘۔2012 میں ایک فیکٹری میں لگنے والی آگ جس سے 300 افراد ہلاک ہوئے تھے کے واقعے کے پیش نظر نئی تحقیق میں اس ہی شعبے پر آج مزدوروں کی حالت پر نظر ڈالی گئی۔ حکومت کی اولین ترجیحات میں انسانی حقوق کو شامل کیا جائے، ہیومن رائٹس واچ ایچ آر ڈبلیو نے تقریباً 140 افراد کا انٹرویو کیا جس میں انہیں معلوم ہوا کہ انہیں جبری طور پر مقررہ وقت سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، ان کی روز کا معاوضہ دینے سے انکار کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ معاوضہ کے ساتھ یا زچگی کی رخصت، کام کرنے کا وقت کم دیا جانا، بدکلامی کرنا وغیرہ جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔
ملک کے دو بڑے ٹیکسٹائل اور گارمنٹ انڈسٹری ایسوسی ایشن نے ان الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ غیر ملکی کمپنیاں ایسی فیکٹریوں سے کام لینا چھوڑ دیتی ہیں جو مزدوروں کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔آٓل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سربراہ حامد طفیل خان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے رکن دنیا کی چند بہترین برانڈز کے لیے کام کرتے ہیں اور وہ ملکی و عالمی مزدور اور ماحولیاتی ظابطے کے تحت کام کرتے ہیں۔
واش روم کی بریک کے حوالے سے پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ مبشر نصیر بٹ کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ وہاں گھنٹہ بھر لگائیں گے تو یہ قابل قبول نہیں‘۔
ملک کے سب سے بڑے ٹیکسٹائل حب، سندھ میں اعلیٰ مزدور حکام کا کہنا تھا کہ اس کام کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
عبدالرشید سولنگی کا کہنا تھا کہ ’اگر مزدور خوش نہیں ہوں تو وہ کام پر ہی نہیں جاتے ہیں‘۔
ایچ آر ڈبلیو کو تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ فیکٹریاں روزانہ کی بنیاد پر مزدوروں کے قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہیں جو ان کے مطابق عالمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ان کا کہنا تھا کہ اپنی تحقیق کے دوران ان کے سامنے چند بچوں سے مزدوری کروانے اور گارمنٹ کی صنعت میں مزدوروں کی 30 فیصد تعداد رکھنے والی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے کیسز بھی سامنے آئے۔
رپورٹ میں گارمنٹ انڈسٹری میں کام کرنے والی فائزہ کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی خاتون واش روم کا وقفہ مانگتی ہے تو اس سے کہا جاتا ہے کہ کیا اس کے ایام حیض چل رہے ہیں، یہ انتہائی شرمناک ہے‘۔
مزدوروں کی مہم چلانے والوں کا کہنا تھا کہ ’قانون پر عمل در آمد نہ ہونا، نوکری سے نکالے جانے کا ڈر اور خاتون انسپیکٹرز کی کمی کی وجہ سے خواتین جنسی ہراساں کے واقعات رپورٹ نہیں کرتی ہیں۔
چند فیکٹریوں میں پینے کا صاف پانی بھی نہیں ہوتا اور بیمار پڑجانے یا حاملہ مزدوروں کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے اور زائد وقت کام نہ کرنے یا استعفیٰ نہ دینے والے مزدوروں پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔
ایچ آر ڈبلیو نے حکومت سے اپنے لیبر قوانین کو عالمی معیار کے مطابق مزید مستحکم بنانے کا کہا۔
’کم از کم تنخواہ 30 ہزار اور پینشن 15 ہزار روپے مقرر کی جائے‘
اقوام متحدہ کے مزدوروں کے عالمی ادارے کی ڈائریکٹر برائے پاکستان انگرڈ کرسٹین سین کا کہنا تھا کہ ’مزدوروں کے حقوق انہیں نہ دیے جانے سے صنعتی تضاد پیدا ہوگا جو بدترین صورتحال اختیار کرتے ہوئے شہری و سیاسی عدم استحکام کا بھی سبب بن سکتی ہے۔
خیال رہے کہ 2017 میں ایک معروف کپڑوں کے برانڈ کی جانب سے بہتر حالت کا مطالبہ کرنے والے 32 مزدوروں کو نکالنے پر احتجاج سامنے آیا تھا جس نے ملک میں بے چینی کی صورتحال پیدا کردی تھی۔
نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل ناصر منصور کا کہنا تھا کہ ایسے حالات کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے اگر مزدوروں کی یونین میں بہتر نمائندگی ہو ۔ان کا کہنا تھا کہ یونین قائم کرنے کے لیے قوانین میں ترمیم کیے جانے کے باوجود فیکٹریاں ایسی کوششوں کی مزاحمت کرتی ہیں کیونکہ انہیں ڈر رہتا ہے کہ یہ ان کے بڑے نقصان کا سبب بنیں گی۔اگر ان تمام حالات کو پیش نظر رکھا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ انڈسٹریز میں مزدوروں کا استحصال ہو رہا ہے۔
اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدورنسلی مزدور بن جاتے ہیں روپے کی کمی ان کو ادھار رقم لینے پر مجبور کرتی اور وہ بچارے ساری عمر اس قرض کو اتارتے رہتے حتی کہ ان کی اگلی نسل بھی اس قرض کو چکانے کی خاطر جدی پشتی مزدور بن جاتے۔ہوٹلوں میں موجود چھوٹے جو ایک میلا کپڑا ہاتھ میں لیے میز صاف کرتے اور چائے کھانا سرو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔کیا وہ بچے تعلیم کے حقدار نہیں ۔تعلیم تو ایک طرف رہی ان سے جو مار پیٹ کا سلوک ہوتا ہے کیا وہ جائز ہے؟ ۔ایک طرف تو ہم خود کو ترقی یافتہ قوم کہلانے کی بات کرتے ہیں مگر ہم اپنے لوگوں سے مخلص نہیں ۔ چھوٹے طبقے سے بیشتر افراد مزدور ہوتے ہیں ۔ اپنی مالی حالت بہتر کرنے کی مد میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین اور لڑکیاں بھی باہر کام کاج کے لیے نکلتی ہیں ۔گارمنٹ فیکٹریز میں ان کا تناسب دوسری فیکٹریز کی نسبت زیادہ ہوتا ۔اسی لیے وہی زیادہ مسائل سے نبرد آزما نظر آتیں۔اس کے علاوہ گھریلو نوکرانیاں جن میں خصوصا بچیاں تشدد کا شکار ہو رہی ہیں ۔مالکان انہیں زر خرید غلام سمجھ کر ان سے جانوروں جیسا سلوک کرتے ہیں اور زرا سی کوتاہی پر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔آئے روز ایسے واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں دو چار روز کا غلغلہ اور پھر سب بھول بھال جاتے ۔جبکہ یہ بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے ۔ملکی ترقی کے لیے لازم ہے کہ ہر فرد کے حقوق کی حفاظت کی جائے تاکہ ایک خوبصورت پرامن اور تہذیب یافتہ معاشرہ وجود میں آئے ۔