پشاور۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان نے کہا ہے کہ معاشرے کی بہتری کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر نیا’’عمرانی معاہدہ ‘‘کرنا ہوگا، پاکستان میں کوئی داخلہ اور خارجہ پالیسی نظر نہیں آرہی، ان سٹیک ہولڈرز کو بٹھا کر خارجہ و داخلہ پالیسی ازسر نو بنائی جائے۔
باچاخان مرکز پشاور میں ”پشتون قامی جرگہ“ کے انعقاد کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اے این پی سربراہ اسفندیارولی خان نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بداعتمادی کا خاتمہ نہیں ہوگا تو اسکے نتائج بھیانک ہوں گے،دونوں ریاستوں کو بدگمانیاں ختم کرنی ہوگی، 12تجارتی راستے بند ہیں، عوام کے درمیان رابطہ بحال ہو تو بدگمانی میں کمی آسکتی ہے۔اسفندیارولی خان نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت خارجہ پالیسی نظر نہیں آرہی اور نہ داخلہ پالیسی کا وجود ہے،تمام سٹیک ہولڈرز کو بٹھا کر خارجہ و داخلہ پالیسی ازسر نو ترتیب دینا ہوگی، این ایف سی ایوارڈ کا اجراء نہیں کیا جارہا،ہمارا مشترکہ مطالبہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد نیا این ایف سی ایوارڈ جلد سے جلد جاری کیا جائے۔
انہوں نےکہاکہ ہمارے صوبےکی بنیادی پیداوار بجلی ہے،اگر ہمیں انکے پیسے نہیں دیے جائیں گے تو پیسے کہاں سے آئیں گے؟وزیراعظم تو انکاری ہو چکے ہیں لیکن ہم انہیں کہتے ہیں کہ ان کے دور میں آٹے اور چینی سے جن افراد نے جتنے پیسے کمائے ہیں،وہ بھی اگر اس صوبے کو دیے جائیں تو ہمارے لئے کافی ہے، گذشتہ حکومتوں پر چوری کے الزامات لگانے والے آج جواب دیں کہ اب انکے دورحکومت میں پیسے کہاں جارہے ہیں؟۔ اسفندیارولی خان نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے،اندھیرے میں لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے، اس معاملے پر عدالتی فیصلے بھی آچکے ہیں، لاپتہ افراد کا کوئی اتا پتا نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش کریں، اگر عدالتیں سزائے موت بھی دیں تو بے شک دے دیں۔اسفندیارولی خان نے کہا کہ پشتونوں کی نسل کشی بند کی جائے، اٹھارویں آئینی ترمیم کا تحفظ ہونا چاہیے اور اسکے خلاف تمام سازشیں بند کی جائیں، اگر اٹھارویں آئینی ترمیم کو چھیڑا گیا تو اس ملک کے وفاق کو بڑے خطرات لاحق ہوں گے، جسکی ذمہ داری انہی پر عائد ہوگی جو یہ سازشیں کررہے ہیں۔