معاشی حالات کے اثرات اس قدر شدید ہوتے ہیں کہ ان کے سے امیر سے امیر ترین شخص سے لے کر عام دیہاڑی دار مزدور تک بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا، لوگوں کی امدنیاں محدود ہیں جب کہ اخراجات کی ڈور ہے کہ لپٹنے کا نام ہی نہیں لیتی، عوام الناس کو پانی سے لے کر کفن کے کپڑے تک ہر ایک اشیاء ضرورت پر ٹیکس دینا ہی پڑتا ہے
تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کے نام پر عوام کو اوگرا کئی سالوں سے اچھا خاصا چونا لگا رہی ہے، ایک ماہ اگر قیمتوں میں 2 روپے کمی کی جاتی ہے تو اگلے ماہ 6 روپے کا اضافہ کرکے اگلی پچھلی تمام کسریں پوری کر لیتی ہے نتیجہ پھر عوام الناس کو بے لگام مہنگائی کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے، اور اوپر سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ نظام وضع شدہ نہیں ہے، زرائع آمدورفت کے کرائے ہمیشہ جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ بڑھے ان میں کمی اس تناسب سے کبھی نہیں ہوئی جس تناسب سے بڑھے تھے، جس کے اثرات ضرورت زندگی کی ہر شے پر پڑتے ہیں،
اب ذرا ایک نظر دیگر اشیائے ضروریہ پر بھی ڈال کر دیکھ لیں، بلاشبہ مہنگائی میں اضافے کے بہت عوامل کار فرماء ہوتے ہیں لیکن ان سب سے زیادہ تباہ کن خود ساختہ مہنگائی ہے کہ جس پر قابو تب تک نہیں پایا جاسکتا جب تک کہ صارف، حکومت اور تاجروں کے نامزد نمائندگان اپنا مثبت کردار ادا نہیں کرتے، یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اشیائے ضرورت کے بغیر گزارہ ناممکن ہے، اسی کا فائدہ چند ضمیر فروش تاجر اٹھاتے ہیں، اور گورنمنٹ کے طے شدہ سبزی، دال، گوشت، چینی، آٹا، چاول اور دالوں کے نرخوں کو نظرانداز کرکے من مرضی کے ریٹس پر فروخت کرکے ناجائز منافع کماتے ہیں اور جب ان کو نرخوں کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانے عائد کیے جاتے ہیں تو انکی انجمن تاجران کی طرف سے پر زور ردعمل آتا ہے،
لیکن دوسری جانب صارفین کے پاس سوائے بیچارگی اور لاچاری کے لچھ نہیں ہے، کیونکہ اگر صارف دکاندار سے گورنمنٹ ریٹ لسٹ کی مانگ کر لے تو اس کو یہ جواب ملتا ہے کہ آپ اگلی جگہ سے سامان خرید لیں، صارفین کے حقوق کی حفاظت کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ تنظیمیں بھی موجود نہیں ہیں، ایسے میں اس مجبور اور مضروب صارف کو اپنے حق کے لیے خود آواز بلند کرنی ہوگی، پنجاب حکومت نے قیمت پنجاب کے نام سے ایک بہت جدید ایپلیکیشن متعارف کروائی ہے جس میں تحصیل کی سطح پر تمام اشیائے ضروریہ کی لسٹ اور انکی تازہ ترین قیمت درج ہوتی ہے، جس کی بناء پر ان کو یہ آسانی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی چیز کی خرید کرتے ہوئے اس کی گورنمنٹ کی طرف سے متعین کردہ قیمت سے زیادہ قیمت مانگنے پر دکاندار سے اصرار کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر صارف کو چاہیے وہ اپنی خریداری کی پکی رسید ضرور مانگیں تاکہ بوقت ضرورت اسے بطور ریکارڈ اور کاروائی کے لیے استعمال کیا جا سکے، بہت سے اچھے سٹورز تو صارفین کو خود سے ہی کمپیوٹرائزڈ بل دیتے ہیں جو کہ ایک بہترین طریقہ کار ہے، اس سے صارف اور تاجر دونوں کی بہتری ہوتی ہے، بہت سے زمہ دار تاجر اور دوکاندار ایسے بھی ہیں جو پوری ذمہ داری سے عوام کے بہترین مفاد میں خود ساختہ مہنگائی سے بچانے کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ ان نزدیک انکا صارف سب بڑی ترجیح ہوتا ہے،
مہنگائی کے اس جن کو بوتل میں بند کرنے کے لیے صارف کو اپنے حقوق کی بھرپور آگاہی حاصل کرنی پڑے گی، حکومت کو اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کروانے کے لیے قیمتوں کے تعین کے نظام کو مربوط بنانا پڑے گا اور سب سے بڑھ کے ذمہ دار دکانداروں اور تاجروں کو اپنی ذمے داریوں کو سمجھتے ہوئے صارفین کے بہتر مفاد میں اپنے انداز موجود اشیائے ضرورت کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے اور ان مہنگے داموں فروخت کرنے والوں کا بھرپور احتساب کرکے اس خود ساختہ مہنگائی کو قابو کرنے میں اپنا حصہ بھی ڈالنا پڑے گا، کیونکہ دراصل صارف کے حقوق کا دفاع انکا اپنا ہی دفاع ہے،