اسلام آباد(مانیٹرننگ ڈیسک) سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ مشرف کیس ملک کی عدالتوں میں چلتا رہا ، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور خصوصی عدالت میں انہوں نے اپنا مﺅقف دیا جس کے بعد سابق صدر کو جانے کی اجازت ملی، مشرف وزارت داخلہ سے پوچھ کر نہیں گئے۔ ٹرائل کورٹ اگر مشرف کے خلاف فیصلہ دے تو تب ہی وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انٹرپول کے ذریعے انہیں ملک واپس لائے، تمام الزامات سیاست دانوں پر تھوپنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ڈان لیکس رپورٹ میں وزارت داخلہ کو الزام دینا کسی بھی صورت میں ٹھیک نہیں ہے کیوں کہ ڈان لیکس پر بننے والے کمیشن میں وزارت داخلہ کا ایک جونیئر افسر شامل تھا ،ڈان لیکس کی رپورٹ پبلک ہونی چاہیے اور حکومت کو چاہے کہ ڈان لیکس کو پبلک کرے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ میرے حوالے غلط رپورٹیں چلیں میں میڈیا سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے حوالے سے کوئی بھی بات کانوں میں ڈالے مجھ سے تصدیق کریں۔سینٹرل ایگزیکٹیو کے میٹنگ میں 45لوگ تھے اور اس میں پارٹی پالیسی سے میں نے اختلاف کیا مگر اس اختلاف کی خبر جس نے لیک کی وہ بددیانت لوگ ہیں۔ہم سچ کہنا اور سچ بولنا روایت بنا لیں تو بہت سی غلطیاں درست ہوجائیں گے۔ایک شخص سے جب اختلاف رائے ہوجائے تو اسے الگ ہو جانا چاہئے۔کوئی کونسلر کا عہدہ نہیں چھوڑتا ،میں نے وزارت داخلہ کا عہد ہ نہیں لیا کیوں کہ اس کے پیچھے کچھ وجوہات تھیں ۔ میرا خیال تھا کہ میں استعفیٰ دے کر اپنے تمام اختلافات بیان کردوں گا مگر موجودہ حالات میں پارٹی اور پارٹی قیادت پر مشکل وقت ہے، میرے اختلافات کی وجوہات بیان کرنا پارٹی کے لئے خطرناک ثابت ہوگا اسی لئے میں اس ساری صورت حال پر خاموش ہوں۔
source..
http://dailypakistan.com.pk/national/20-Aug-2017/629314