محمدکاشف درد سے بلبلا رہا تھا کیونکہ اسے ایک پاگل کتے نے کاٹ لیا تھا،بچے کے والد اعجاز حسین محمد کاشف کو نوازشریف ہسپتال لیہ ایمرجنسی میں لے آئے تاکہ فوری طور پر انجکشن لگوا کر بچے کی زندگی کو خطرے بچایا جاسکے ۔لیکن حسب روایت نوازشریف ہسپتا ل کے ایم ایس نے بتایا کہ انکے پاس فی الوقت کتے کے کاٹنے کی ویکسین موجود نہ ہے اور مزید اگلے چند دنوں تک بھی ویکسین کی دستیابی ممکن نہیں۔
ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے چونکہ میں بچے اور انکے والد کے ساتھ تھا ہم فوری طور پر بچے کو لیکر بھاگے بھاگے ڈسٹرکٹ ہسپتال لیہ پہنچے اور ایم ایس ڈاکٹر عتیق الرحمن سے رابطہ کرنے پر معلوم پڑا کہ دوائی سرے سے موجود ہی نہیں اورٹینڈزکے ذریعے لاہور سے منگوائی گئی ہے اور اگلے دس دن تک دوائی آنے کے امکانات نہیں۔نوا زشریف ہسپتال اور ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ایم ایس صاحبان سے ناامید ہو کر ہم فوری طور پر سی ای او ڈاکٹر امیر عبداللہ سے رابطہ کرنے پر مجبور ہوگئے توانہوں نے پھر وہی کہانی دھرائی کہ بندہ ڈی جی ہیلتھ آفس لاہور بھیجا ہوا ہے چند دن بعد رابطہ کریں ۔سی ای او صاحب سے میں اس بندے کی بابت جاننا چاہا جو ویکسین کے سلسلے میں لاہور گیا ہوا ہے تو ڈاکٹر امیر عبداللہ سامٹیہ مجھ پر انتہائی غصہ ہوئے شاید میں نے ان سے کوئی غیر مناسب سوال پوچھ لیا ہو۔
مجھے یہ جان کر شدید حیرت اور دکھ ہوا کہ سی ای او ڈاکٹر امیر عبداللہ کا رویہ اور گفتگو کا انداز اپنے جونیئر ڈاکٹر ز صاحبان کی چغلی کھا رہا تھا۔مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق ہم بچے کو فوری طور پر گھر لے آئے اور بازار سے انتہائی مہنگی ویکسین خرید کر بچے کولگوالی ،تاکہ بچے کی زندگی کو لاحق خطرات سے بچایا جاسکے۔اس تمام صورتحال کے بارے بچے کے والد کے کہنے پر میں نے رونامہ خبریں کے بیوروچیف لیہ ملک مقبول الہیٰ سے رابطہ کیا تو وہ میری بات پوری توجہ سے سننے کے بعد ایسے خاموش ہوئے کہ آگے ایک لفظ تک نہ بولے جب ہم نے ان سے اجازت طلب کی تو انہوں نے بڑی فراخدلی سے اجازت دے دی۔
میں ایک سماجی کارکن ہوں میرا کام لوگوں کے کام آنے اور انکے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔چاہے وہ کوئی بچہ ،جوان یا بوڑھا ہو میرے لئے سب برابر ہیں لیکن میں دکھی انسانیت کے دعویدار و ں کے سماجی رویے دیکھ کر اس قدر حیران اور دکھ میں ہوں کہ بیان سے باہر ہے۔میں اپنی لیہ کی غیور عوام سے پوچھنا چاہتاہوں کہ ان ڈاکٹرز صاحبان کا رویہ ایک عام شہری سے اور ایک عام انسان سے اس قدر توہین آمیز کیوں ہوتاہے ۔۔۔۔؟ایسے توہین آمیز لہجے میں بات کرتے ہیں کہ خداکی پناہ۔۔۔۔۔۔۔آخر کب تک یہ سلسلہ چلے گا۔۔۔؟؟
غریب عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے یہ ڈاکٹرز صاحبان جن کا پیشہ مسیحائی ہے آخر کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں نوازشریف ہسپتال ،ڈسٹرکٹ ہسپتال اور سی ای او کے بعد کون سا ایسا فرد بچ جاتا ہے جسے حکومت نے عوام کے علاج معالجے کی سہولیات کے لئے تعینات کیا ہوا ہے ۔۔۔۔؟کیا اب ڈاکٹرز صاحبان کا کام صبح سویرے آکر اپنے اپنے کمروں میں بیٹھ کر اخبار پڑھنا اور سیاست پر گفتگو کرنا یا اقرباء پروری کرتے ہوئے من پسند افراد تک محدود رہ گیا ہے ۔آخر غریب عوام کہاں جائے ۔۔۔۔؟
جب یہ غربت کے مارے لوگ ہم سے رابطہ کرتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ اپنے تن من دھن کے ساتھ شامل ہو کر انکی صحت و سلامتی اور بقاء کے لئے اپنی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔تو ہمیں بھی بُری طرح دھنکار دیا جاتا ہے کیا ہم انسان نہیں۔۔۔۔؟
اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا کہ ایک بچے کی جان بچانے کی ویکسین تک دستیاب نہ ہو تو ایسے ہسپتال اور ایسے اداروں کو بند کر دینا چاہیے جو عوام کے ٹیکسوں سے لوٹ کھسوٹ کر رہے ہیں۔اور عوام ایڑیاں رگڑ رگڑ کر قریب المرگ ہوتی جارہی ہے ۔میری صبح اور شام دوسروں کے کام آتے گزر جاتی ہے کہیں میں کسی بوڑھے بزرگ کی تیمارداری میں لگا ہوا ہوں کبھی اسے ڈاکٹر کے پاس لیکر جارہا ہوں تو کبھی اس کو کھانا کھلانے اور دوائی کھلانے جارہا ہوں ۔ایسی صورت میں سچائی کے جھوٹے دعویدار یہ لوگ میرے لیے کرب کا باعث بنتے ہیں اور میرے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لئے بھی جن کے لخت جگر دھیرے دھیرے موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔مجھے عموماً ہسپتال جانے کا اتفاق ہوتا ہے میرے ساتھ عمر رسیدہ بزرگ بھی ہوتے ہیں ۔چوبارہ روڈ پل سے لیکر مغرب کی جانب ریلوے پھاٹک تک گزشتہ تین ماہ سے زائد عرصہ سڑک پتھر ،روڑھے ،گرد ومٹی کی لپیٹ میں ہے ۔صبح شام ایک پانی سے بھرا ٹینک سڑک پر چھڑکاؤ کرتا رہتا ہے جبکہ گڑھے اور پتھروں کی نوکیں۔۔۔اللہ کی پناہ۔
انجمن تاجران کی بے حسی اور حکومت وقت کا غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔مقامی ایم پی اے کے نزدیک مسئلہ۔۔۔قطعی مسئلہ نہیں ۔ان کے نزدیک الیکشن اور اپنی جیت کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہی اصل مسئلہ اور کام ہے ۔پانچ سال پورے ہونے کو ہیں ایم پی اے صاحب نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا سب کے سامنے ہے اب وہ ایم این اے کے امیدوار کے طور پر سامناآرہے ہیں ۔ایک سڑک ڈھنگ سے بن نہیں پارہی اور منصوبہ بندی عوام کے سامنے ہے ۔انجمن تاجران کے عہدیداران سرے سے غائب ہیں۔تاجر برادری اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے اور وہ اس وقت کو کوس رہی ہے جب انہوں نے انجمن تاجران کو ووٹ کاسٹ کیے تھے ۔
میں سمجھتاہوں کہ اگر ہم نے سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ نہ کیا توا گلے پانچ سالوں میں بھی اس طرح نااہل ایم پی اے اور نااہل انجمن تاجران کی سزا بھگتیں گے ۔ایک طرف لاکھوں روپے کی مد میں تنخواہ اور مراعات یافتہ ڈاکٹر صاحبان ہیں تو دوسری طرف عوام اور تاجروں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سیاست دان اور تاجر عہدیداران ہیں جو لیہ کی عوام کو انکے دیئے گئے ووٹ کی سزامل کر دے رہے ہیں ۔عوام کو کتے کاٹ رہے ہیں اور ڈاکٹر صاحبان کے پاس ویکسین نہیں۔۔۔۔۔عوام ’’دھول ‘‘چاٹنے پر مجبور ہے جبکہ صدر تاجران چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔میں ایک سماجی کارکن ہوں اور اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو نہایت درد ناک صورت حا ل میں بیان کر رہاہوں ۔اس سے میر ا مقصد کسی کی توہین نہیں بلکہ وہ آئینہ دکھانا ہے جو ان لوگوں نے کسی طاق میں چھپا کر اپنے اپنے سروں پر اونچے شملے باندھ رکھے ہیں ۔
میری عوام سے اپیل ہے کہ وہ ایسے غیر ذمہ داروں کو احساس دلوائیں کہ ان کا وجود انکے عہدے عوام کے ٹیکسوں سے برقرار رہیں ۔آج ہم ہسپتالوں میں مارے مارے پھر رہے ہیں تو کل کوئی اور پھرتا پھرتا جان کی بازی ہارجائے گا ۔یہ ظالم اور بے حس لوگ جوں کے توں رہیں گے اور یہ بزرگ خواتین ،بچے،جوان اس سڑک پر گرتے رہیں گے مرتے رہیں گے ۔پورے پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹنے والے ایم پی اے اب ایم این اے بننے کے لئے پر تو ل رہے ہیں ۔جنہوں نے اپنے اس دور اقتدار میں ایک بھی ڈھنگ کی سڑک نہیں بنوائی۔ظالم اور بے حس حکمرانوں کے دن گنے جاچکے ہیں ۔چاہے وہ نااہل حکومتی عہدیدارہوں یا نااہل دولت کے بل پر سیاست میں آنے والے سیاست دان ہوں ۔
آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔۔۔!!
حاجی تنویر احمد 0300-8766750