ایک زمانے سے سن رہے ہیں کہ
انسان کو جینا آنا چاہیے ۔
مرنا تو سبھی جانتے ہیں ۔
معروضی واقعات ، جذبات اور خدشات سے اُلجھتے احساسات میں احباب کی رائے ہےکہ بس،،،
حالات سے نہ گھبرائیں ۔
بس پاسپورٹ بنوائیں ،،،
کھلا سچ یہ ہے کہ ہمارے پاس پاسپورٹ بنوانے کے بھی پیسے نہیں ہیں ، مالی بلکہ مالن کے حالات میں اگر ہم آہنگی بھی پیدا ہو جائے اور اگر پاسپورٹ بھی بن گیا تو ہم پھر بھی کہیں نہ جا پائیں گے ،،، کیونکہ ہماری عمر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ،
برطانیہ اچھا نہ فرنگی بہتر ۔
لندن سے، کراچی کا کورنگی بہتر ۔
واللہ میرا اس پہ یقیں ہے ۔
گورے سے مرے ملک کا بھنگی بہتر ،،،
بھنگی سے مطلب ،،، وہ مرد مست۔ جو بھنگ پی کر ،، اپنے وطن ، اپنی دھرتی پر جیئے ،، ہم اس عہد میں اپنے وطن کی مٹی کو گواہ بنا دیا ہے ، یہ عظیم الشان مٹی کا ہی ظرف عالیشان ہے کہ اس نے ہمیں تمام تر غلطیوں کے باوجود اپنی بانہوں میں لیا ہوا ہے ،،،
ایسی عظیم ماں جیسی دھرتی کو چھوڑ کر ہم کہیں نہیں جاسکتے ،،،،
ہاں اپنی بستی ، کسی دوسرے کونے میں بسانے کا سوچتے رہتے ہیں ،،،
گرچہ امن و سکون کی بستی،، بہاول پور جہاں خواجہ غلام فرید رح کی روہی چولستان سے محبت و الفت کی سدا بہار کافیوں ، گیتوں اور ڈوھڑوں کے شہد بھرے سندیسے صبح شام ملتے رہتے ہیں ،،،
ان کے بعد اگر کہیں سکون ہے تو شہر مدینہ منورہ ہے جہاں رحمت اللعالمین آرام فرما رہے ہیں ،،، اس کے بعد اگر کوئی گوشہء زندگی ہے تو وہ ہے،،، میرا کراچی،،،، کراچی کو بھی میں نے ،،،ماں ، جیسا پایا ۔ جسے ایک مدت تک دشمنوں نے تباہ کیے رکھا مگر یہ عظیم خطہ آ ج بھی لاکھوں نہیں کروڑوں انسانوں کو اپنی بانہوں میں لیے ہوئے ہے ،،،
یہ شہر،،، بذات خود ایک بندہ پرور ،،،
اس کے بندہ پرور باسیوں میں ایک بھرپور ، علم و فضل کے حامل ڈاکٹر اطہر محبوب ،،، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں اور محبتوں سے ایک جہان کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے ،،، ہم بحیثیت مجموعی ناقدری کے ان جیسے کئی ہیروں کو ضائع کر رہے ہیں ،،، خیر! اللہ تعالیٰ انہیں اپنے کرم کے سائے میں رکھے ، ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے گرد نیا جہان ،،، آباد کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں ،،،، قدرت انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گی ،،،
اب بات چلی ہے کراچی کی تو یہاں بسنے والے لوگوں کا بڑا سادا ہجوم سامنے آ گیا ہے ،،، سب سے بڑھ کر ہمارے ،،، قائدِ اعظم ۔ جناب محمد علی جناح رح ، اور لیاقت علی خان صاحب اور ان کے بعد عبد الستار ایدھی ، ڈاکٹر رتھ فاؤ ، اب جناب چپا صاحب ،،، بےشمار لوگ خدمت انسانیت کے روشن ستارے ،،، صنعت و تجارت ، ثقافت و تہذیب کی روشنی پھیلانے والے اور خاص طور پر بلا تخصیص بھلائی کرنے والے اداروں میں ،،، السیرانی ٹرسٹ ،، بڑے نام ،،،
مدت ہوئی میرا اس شہر سے گرچہ کوئی عزیز داری والا معاملہ تو نہیں ہے مگر یہ شہر مجھے عزیز تر،،، ویسے بھی عزیز داری ، میں اب ، عزہ داری،،، سرائیت کر گئی ہے ،، اب یہ کہانی گھر ،گھر کی ہو چکی ہے ،،،
کہانی سے یاد آرہا ہے کہ ایک دور میں کراچی ٹیلیوژن سینٹر کے ڈرامے ،،، ان کہی، دھوپ چھاؤں ،، پرچھائیاں ، انکل عرفی، ،،، خیر بہت سارے اور بہترین ۔جن بیگم خورشید مرزا ، قربان جیلانی ، شفیع محمد شاہ ، شکیل احمد ، لہری ، ،،،، جیدی،،، کیا کمال کے فنکار تھے ، راحت کاظمی ، سائرہ کاظمی ، معین اختر ،
سچی بات ہے کہ جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن ،،
جی،جی،،،،، فرصت ملے تو سوچئے گا کہ اب تک انسان اتنا نادان ہےکہ اگر اسے جانور کہیں تو آگ بگولہ ہو جاتا ہے اور اسے شیر کہیں تو بہت خوش وخرم ۔
گزارش ہے کہ خوش رہنے کے لیے اپنے خالق حقیقی کو خوش کیجیے گا ، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کی عبادت کرتے ہوئے ، اللہ کے بندوں کی خدمت ضرور کیجئے ،،،،، کیونکہ اب ہر طرف سے نفرتوں ،کدورتوں، ظلمتوں ،بدیانتیوں اور نا انصافیوں کے جنگل ہمارے بستیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں ،،،، خُدارا اپنی بستیوں کو بچائیے ،،،،