چاچا خیر دین خونِ جگر میں قلم ڈبوکر نہایت خلوص کے ساتھ معاشرے کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ ان کی زیرِ نظر تحریر اس اُمید کے ساتھ پیش کررہے ہیں کہ آپ اپنی زندگی میں حقیقی رنگ بھرنے کے لیے دنیا داری کے اذیت ناک کھیل سے دور رہنے کی عملی کوشش کریں گے۔ چاچا خیر دین کہتے ہیں:
”اِدھر کے نہ اُدھر کے بیچ منجدھار میں لٹکے ہوئے لوگ …… پاکستان میں دو لوگ بڑے اطمینان سے ہیں‘ غریب اور امیر … یہ جو درمیان والے ”مڈل کلاسیئے“ ہیں، صحیح بیڑا ان کا غرق ہوتا ہے‘ یہ رکھ رکھاؤ سے لگ بھگ امیر لگتے ہیں لیکن حالت یہ ہوتی ہے کہ گھر میں آئے روز اس وجہ سے لڑائی ہوتی ہے کہ گھی اتنی جلدی کیسے ختم ہوگیا۔ ہمارے ہاں قابل رحم اور قابل نفرت بھی دو ہی طبقات ہیں، امیر اور غریب۔ امیر قابل نفرت ہے کیونکہ اس کے پاس پیسہ ہے اور غریب قابل رحم ہے کیونکہ اس کے پاس پیسہ نہیں۔پاکستان کا بجٹ بھی انہی دو طبقات کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتاہے، گورنمنٹ بھی انہی دو طبقات پر نظر رکھتی ہے۔درمیان میں جو سینڈوچ بنتا ہے وہ بیچارا مڈل کلاس ہے۔امیر لوگ اسے غریب سمجھتے ہیں اور غریب لوگ امیر۔
یہ مڈل کلاسیا کون ہوتا ہے؟ یہ وہ ہوتا ہے جس کے پاس بظاہر امیروں والی ہر چیز ہوتی ہے لیکن سیکنڈ ہینڈ۔اس کے پاس نسبتاً بہترگھر ہوتاہے لیکن کرائے کا۔ گاڑی ہوتی ہے لیکن بیس سال پرانی۔گھر میں اے سی ہوتا ہے لیکن عموماً چلتا ائیر کولر ہی ہے۔کپڑے صاف ہوتے ہیں لیکن چلتے کئی کئی سال ہیں۔ گھرمیں یو پی ایس ہوتا ہے لیکن اس کی بیٹری عموماً آدھا گھنٹہ ہی نکالتی ہے۔اس کے پاس اچھا موبائل بھی ہوتا ہے لیکن استعمال شدہ۔اس کے گھر میں ہر ہفتے لمبے شوربے والا چکن بنتا ہے۔یہ اپنے بچوں کو پارک میں سیرو تفریح کے لیے لے کر جائے تو عموماً گھر سے اچھی طرح کھانا کھا کر نکلتا ہے۔اس کے پاس اے ٹی ایم کارڈ تو ہوتا ہے لیکن کبھی پانچ سو سے زیادہ نکلوانے کی نہ ضرورت پڑتی ہے نہ ہمت۔ یہ دن رات کوئی ایسا بزنس کرنے کے منصوبے بناتا ہے جس میں کوئی خرچہ نہ کرنا پڑے۔اِس کی گاڑی صرف سردیوں میں بڑے کمال کی کولنگ کرتی ہے۔یہ جب بھی اپنے بیوی بچوں کو لے کر کسی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ جاتا ہے، چھ افراد کی ساری فیملی دو برگرزمیں ہی بھگت جاتی ہے۔یہ اگر ظاہر کرے کہ میرے پاس بہت پیسہ ہے تو رشتے دار ادھار مانگنے آ جاتے ہیں‘ نہ بتائے تو کوئی منہ نہیں لگاتا۔ یہ اپنی اوقات سے صرف 20 فیصد اونچی زندگی گذارنے کی کوشش میں پستا رہتا ہے۔ اصل میں یہ غریبوں سے بھی بدتر زندگی گذار رہا ہوتا ہے۔ اس کی ساری زندگی کمیٹیاں ڈالنے اور بھگتانے میں گذر جاتی ہے۔
پاکستان میں امیروں اور غریبوں سے کہیں زیادہ تعداد مڈل کلاسیوں کی ہے لیکن یہ کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں ہر وہ بندہ مزے میں ہے جس کے پاس بہت سارا پیسہ ہے یا بالکل نہیں ہے۔جس کے پاس پیسہ ہے وہ اے سی میں سوجاتا ہے۔ جس کے پاس نہیں وہ کسی فٹ پاتھ پر نیند پوری کرلیتاہے۔ پیسے والا کسی سے کچھ نہیں مانگتا اور غریب ہر کسی کے آگے ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہوجاتاہے۔رگڑا اُس کو لگتا ہے جس کے پاس پیسہ تو ہے لیکن صرف گذارے لائق۔غریبوں کی اکثریت کو یہ مڈل کلاسیے ہی پال رہے ہیں۔کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ سب سے زیادہ خوف خدا بھی اِس مڈل کلاس میں ہی پایا جاتا ہے۔ یہی کلاس سب سے زیادہ خیرات کرتی ہے۔ بعض اوقات تو ان کی اپنی زندگی غریب سے بھی بدتر گذر رہی ہوتی ہے لیکن انا کے مارے یہ بیچارے کسی کو بتاتے نہیں۔آپ نے کبھی لوئر ایلیٹ کلاس یا اپر ایلیٹ کلاس کی ٹرم نہیں سنی ہوگی۔لوئر غریب یا اپر غریب بھی نہیں ہوتا صرف لوئر مڈل کلاس یا اپر مڈل کلاس کے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔لوئر اور اپر میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا‘ لوئر والے کے پاس موٹر سائیکل ہوتی ہے اور اپر والے کے پاس پرانے ماڈل کی کار۔نیندیں دونوں کی اڑی رہتی ہیں۔یہ عیدالاضحی پر قربانی کی استطاعت نہ رکھنے کے باوجود کسی اونٹ یا گائے میں حصہ ڈال لیتے ہیں۔ان کی ساری زندگی گھر کی فالتو لائٹس آف کرنے اور بل کم کرنے کے منصوبے بناتے گذر جاتی ہے۔ یہ موبائل میں سو روپے والا کارڈ بھی پوری احتیاط سے استعمال کرتے ہیں اور گھر والوں کو آگاہ کیا ہوتا ہے کہ ایک مسڈ کال دوں تو اس کا مطلب ہے میں آ رہا ہوں۔ دو مسڈ کال دوں تو مطلب ہے میں ذرا لیٹ ہوں۔یہ ایک دن کے استری کیے ہوئے کپڑے دو دن چلاتے ہیں۔یہ ہر دو گھنٹے بعد شک دور کرنے کے لیے بجلی کے میٹرکی ریڈنگ چیک کرتے رہتے ہیں۔یہ کبھی بھی اس قابل نہیں ہو پاتے کہ ایک ہی مہینے میں بجلی، گیس اور پانی کے سارے بل اکٹھے ادا کر سکیں لہذا بجلی کا بل ادا کر دیں تو گیس کا بل اگلے مہینے پر ڈال دیتے ہیں۔
ان کی اکثریت چونکہ پڑھی لکھی بھی ہوتی ہے لہٰذا کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔ان کے پاس بیٹیوں کی شادی کرنے کے پیسے نہیں ہوتے،اولاد کے لیے اچھی نوکری کی سفارش نہیں ہوتی اس کے باوجود یہ کسی کو دکھ میں دیکھتے ہیں تو خود بھی آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ان کی گھر کام کرنے والی غریب ماسی چونکہ دیگرمختلف گھروں میں کام کرتی ہے اس لیے رمضان میں ہر گھر سے راشن کے نام پر لگ بھگ پچاس کلو آٹے سمیت چار پانچ ماہ کا راشن اکٹھا کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ لیکن مڈل کلاسئے پریشان رہتے ہیں کہ اپنے گھر کے لیے جو پندرہ دن کا راشن لائے تھے وہ ختم ہونے کے قریب ہے اور تنخواہ ملنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ زکوٰۃ غریبوں کو جاتی ہے۔ بھیک کے پیسے بھی کوئی غریب ہی لیتا ہے۔ فطرانہ بھی غریب کا نصیب بنتا ہے۔لیکن غریب یہ سب لے کر بھی کوئی کام کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا کیونکہ اس نے طے کر لیا ہے کہ چونکہ وہ غریب ہے لہٰذا اس پر کسی قسم کی کوئی محنت فرض نہیں اور باقی سب کو چاہیے کہ وہ اسے مل جل کر پالیں۔ بھکاری وہ واحد طبقہ ہے جو کبھی کسی کو بھیک نہیں دیتا۔آپ کسی بھکاری کو ذرا کسی کام پر لگانے کی آفر کریں آگے سے جو سننے کو ملے گا وہ آپ بہتر جانتے ہیں۔ لیکن مڈل کلاسیا کیا کرے؟ یہ نہ زکوٰۃ مانگتا ہے‘ نہ فطرانہ‘ نہ بھیک۔یہ صرف کڑھتا ہے، سسکتا ہے اور مرتا ہے!!!“
یہی حالات ترقی پذیر ممالک کے ہیں۔ خاص طور پر مسلم اُمہ اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ اگر آپ نے حقیقی ترقی دیکھنا ہے تو جاپان کو دیکھیں جو دنیا کی امیر ترین قوم ہے لیکن اُن میں سے کوئی فرد عالمی سطح پر امارت کا اعزاز نہیں رکھتا یعنی وہاں ہر شخص ذاتی خوشحالی وترقی سے کہیں زیادہ سماجی ترقی کے شعور سے آگاہ ہے اور اس کا عملی مظاہرہ بھرپور طریقے سے کرتا ہے۔ یعنی یہ وہی ریاست ِمدینہ ہے جس کا تصور ہمارے محبوب قائد عمران خان پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی عطا فرمائے اور یہ ملک و ملت کو دنیا میں باوقار مقام دلانے میں کامیاب ہوں۔ آمین