یہ دنیا ست رنگی یا ایک تماش گاہ جہاں رنگا رنگ ڈرامے پیش کیے جاتے اور ہر انسان ایک ایکٹر کے طور پر سامنے آتا ۔ملک خداداد پاکستان کی سیاست تو ایسی دس رنگی ڈگڈگی ہے جسے کبھی سیاست دان بجاتے تو کبھی عوام ۔سیاسی بیانات پہ ردعمل اتنے مضحکہ خیز ہوتے کہ ہمیں اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملے گی ۔آجکل وزیر اعظم عمران خان کا مرغ بانی کےحوالے سے دیا گیا بیان مذاق کا نشانہ بنا ہوا ۔ہم تقید برائے تنقید کے عادی ہیں ہاں اگر وزیر اعظم ہمیں بڑے بڑے منصوبوں میں الجھاتے اور لارے لگاتے کوئی نیلی پیلی ٹرین کی بات کرتے یا ایسے منصوبے جو صرف امرا کی سہولت کے لیے ہوتےتو سب واہ واہ کرتے نظر آتے مگر جب انہوں نے سیاسی روایت سے ہٹ کر بات کی اور عام آدمی کے پیمانے پہ بات کی تو اس کا مضحکہ اڑایا جا رہا ۔کوئی شیخ چلی کے انڈوں کی بات کرتا تو کوئی مرغیوں کے حوالے سے مذاق اڑا رہا اب اپوزیشن کا تو کام ہی یہی ہے مگر عوام کو اس پہ سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ۔آئیے زرا اس پہلو کا جائزہ لیں ۔
دو روز قبل پی ٹی آئی حکومت کی سو روزہ کارکردگی سے متعلق تقریب میں عمران خان نے ایک منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ غربت کا خاتمہ کرنے کیلئے دیہی خواتین کودیسی مرغیوں کے انڈے اور چوزے دیں گے۔ اس منصوبے کیلئے زیادہ رقم کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
میری ذاتی رائے کے مطابق یہ ایک اچھا اور منافع بخش پروگرام ہے لیکن حزب مخالف نے اس کا خوب مذاق بنایا ۔تب عمران خان نے جوابی ٹویٹ کیا کہ
ولایتی سوچ رکھنے والے مذاق اڑا رہے ہیں۔ دیسی لوگ غربت کے خاتمے کے لیے بات کریں تو نوآبادیاتی ذہنیت کے لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن جب یہی بات ولایتی کریں توتعریفوں کے پل باندھ دیے جاتے ہیں۔نوآبادیات سے متاثر (غلامانہ) ذہنوں کو مرغبانی کے ذریعے غربت کے خاتمے کا خیال مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے مگر جب "گورے” دیسی مرغیوں (مرغبانی) کے ذریعے غربت مٹانے کی بات کرتے ہیں تو اسے "خیالِ نادر” قرار دیکر یہ عش عش کراٹھتے ہیں۔جب کہ دنیا کی معروف سافٹ ویئرکمپنی مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کا ماننا ہے کہ ’’دنیا میں ایسی کوئی سرمایہ کاری نہیں جو مرغ بانی کی طرح منافع پہنچائے، غریب کیلئے مرغی اس کا اے ٹی ایم ہے‘‘ ۔
بل گیٹس نے ڈھائی سال قبل یہ بات بتا کر خوب داد و تحسین پائی تھی لیکن وزیر اعظم عمران خان نے غریب پاکستانیوں کے لیے مرغی پالنے کی بات کہی تو سوشل میڈیا پر مخالفین نے ہنگامہ برپا کردیا۔ طنز اور طعنوں کے ساتھ ساتھ صارفین اس منصوبے کو شیخ چلی کا خواب گرداننے لگے۔
بل گیٹس کے مطابق مرغیوں کی لاگت ترقی پذیر ممالک میں تقریبا5 ڈالرزہوتی ہے، روزانہ 2 ڈالرز خرچ کرکے ایک ماہ میں 12 مرغیاں خرید نے سے چند ماہ بعد درجنوں مرغیاں ہوجاتیں جو پیسہ کمانے کی مشین (اے ٹی ایم) ثابت ہوتیں اورغربت کی لکیر سے باہر نکال کر متوسط طبقے میں لا کھڑا کرتیں۔
بات تو سمجھ میں آتی ہے مجھے اس موقع پہ مشتاق احمد یوسفی کا مضمون۔اور آنا مرغیوں کا گھر ہمارے یاد آیا ۔انہوں نے بھی مرغ بانی کے بہت سے فوائد گنوائے ۔قصہ کوتاہ اگر سنجیدگی سے اس تجویز کو دیکھا جائے تو بہت سی ہنر مند مرد و خواتین گھر میں چھوٹا موٹا کاروبار ۔مرغبانی یا مویشی پال کر اپنا گزارہ کر رہے ہیں اگر لائیو سٹاک پروگرام میں حکومتی دلچسپی ہو اور ادویات اور بنیادی ضروریات اچھے پیمانے پہ دی جائیں تو یہ ایک عمدہ بزنس ہے ۔اور ملکی معشیت پہ ایک عمدہ اثر مرتب ہوگا ۔جس سے نہ صرف غذائی ضروریات پوری ہونگی بلکہ عوام خوشحال ہوگی ۔شاید تنقید نگار اسے سیاسی مخالفانہ عینک سے دیکھ رہے اسی لیے اس کے دور رس فوائد سے بے خبر ہیں مگر تنفر کی عینک اتار کر دیکھیں تو بات ٹھیک لگے گی ۔اگرچہ وزیر اعظم کی سادگی اور سچائی مخالفین کو ہضم کرنے میں مشکل ہو رہی اسی لیے ہر بات کو ہوا میں اڑا کر کوے سے اڈار بنایا جارہا ۔ عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ اس پہ مثبت انداز میں سوچیں ۔