معاشرے میں بسنے والے تمام افراد اس معاشرے میں اپنی کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے پیش نظر اپنی مہارت یا تعلیم کی بنیاد پر کسی نہ کسی پیشے سے وابستہ ہوکر جہاں اپنے لئیے رزق روزی کا بندوبست کرتا ہے وہاں وہ ساتھ کے ساتھ اپنے فرائض منصبی بھی سرانجام دے کر،کسی نہ کسی طور معاشرے کی بہبود میں بالواسطہ یا بلا واسطہ اپنا کردار ادا کر ہی رہا ہوتا ہے، ہو سکتا ہے میری اس تحریر سے میرے بہت سے دوست اور احباب متفق نہ ہوں مگر میں یہ تحریر اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بناء پر کر رہا ہوں، سکول کے دور سے ہی عجیب و غریب طنزیہ نام اس محکمے سے وابستہ لوگوں کے لئے سننے کو ملتے تھے، چھلڑ، رشوت خور، حرام خور، بد مزاج، ٹکے ٹکے پر بکنے والے، اور نہ جانے کیا کیا،جی ہاں میں پولیس کے محکمے کی بات کر رہا ہوں، لیکن دوسری طرف عام الناس کا عمومی رویہ بھی کچھ خاص اچھا یا قابل ذکر نہیں ہوتا، ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار اگر کسی بڑی گاڑی کو روک لیں تو گاڑی میں بیٹھے موصوف کی شان میں کمی آ جاتی ہے، غیر قانونی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو استعمال کرنے والوں پر ہاتھ ڈالا جائے تو معززین شہر سفارش کو امڈ آتے ہیں، پھر ایمانداری کے سارے تقاضے محکمہ پولیس سے ہی کیوں، سردی، گرمی دھوپ چھاؤں، آندھی طوفان، عیدالفطر، بکرا عید، کرسمَس، میلے ٹھیلے جہاں بھی جائیں پولیس اہلکار حفاظتی بندوبست پر معمور ہوتے ہیں جیسا کہ ان کو تو کسی تہوار منانے کا حق حاصل ہی ہن ہو ، اکثر اوقات تو ان کو محکمانہ تعطیلات بھی نہیں ملتی ہیں، میں بارہا دیکھا ہے کہ، کئ محافل کی حفاظتی ڈیوٹی پر تعینات پولیس ملازمین کو منتظمین پانی تک دینے کے روادار نہیں ہوتے، لوگوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کے نماز عید کی ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کو گلے مل کر عید کی مبارک تک نہیں دی جاتی ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کے پاکستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بیسیوں پولیس اہلکاروں اور افسران نے اپنی قیمتی جانوں کا نظرانہ دے کر وطن کی مٹی کا قرض اتارنے کی سعی کی ہے جو کہ قابل ستائش اور بے مثل ہے حال ہی میں داتا دربار کی حفاظت پر مامور ایلیٹ فورس کے نوجوانوں نے اپنے خون کا نظرانہ دے کر عوام کی جانوں کو محفوظ بنایا ، یہ بات سچ ہے کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، لیکن چند ایک برے لوگوں کی وجہ سے سب کو تو نفرت نہیں کی جاسکتی، پولیس کے محکمے کی بہتری کے لئے بہت سی اصلاحات اور اقدامات ناگزیر ہیں، جس میں سب سے بڑھ کر ان کا عوام الناس کے ساتھ مؤثر رابطہ سازی اور پولیس پر عوامی اعتماد کی بحالی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، لیکن ساتھ ساتھ عوام الناس کو اپنی اداؤں پر بھی غور فرمائیں اور جہاں تک ہوسکے پولیس اہلکاروں کے ساتھ معاشرتی اور قانونی طور پر بھر پور تعاون کریں یقینی طور پر بہتری آئے گی، دوسری جانب پولیس محکمے کے ملازمین کو بھی اپنے رویے میں نرمی اور شائستگی لانے کی اشد ضرورت ہے، اس سے پولیس اور عوام میں فاصلے کم ہونگے اور جرائم کی روک تھام مؤثر طور پر ہوسکے گی.. اس عید پر اپنی سکیورٹی پر تعینات پولیس افسران اور اہلکاروں کو محبت اور عزت کے تحفوں سے نواز کر ایک نئی اور خوبصورت روایت کا آغاز کریں
سید عمران علی شاہ