پولیس نجی ٹارچر سیل بارے حقیقتا مجھے عشروں قبل اس وقت آ گہی ہو ئی جب عدالتی بیلف نے مقامی سرکاری دفتر کے ایک اہلکار کو نجی ٹارچر سیل سے رہائی دلائی ۔ اس کلرک بادشاہ کو تھانہ سٹی کے ایس ایچ او نے ماوراءے قانون گرفتار کر کے اسے نجی ٹارچر سیل میں رکھا ہواتھا اور یہ ٹارچر سیل اس وقت کے معروف اور متحرک سیاسی گھرانے کے ایک زمیندار کے رقبہ پر قائم تھا ، عدالتی بیلف نے نجی ٹارچر سیل سے جس سر کاری اہلکار کو بر آ مد کیا تھا اس نے رہائی کے بعد پو لیس تشدد کی جو جو کہانیاں ہمیں سننے کو ملیں ۔۔ الاماں ۔
یہ الگ بات کہ تحقیقات میں اس اہلکار کو نجی ٹارچرمیں تشدد کا نشا نہ بنانے والے پو لیس اہلکار ایس ایچ او سمیت نو کری سے فارغ ہو گءے تھے لیکن سو چتا ہوں کہ کہ کیا وہ کلرک جو ترقی کر کے آج آ فیسر بن چکے ہیں نجی سیل میں ہو نے والے اس بے رحمانہ تشدد اور ذلت و رسواءی کو بھول پا ءے ہوں گے ۔۔ یقینا نہیں ۔۔
مجھے پو لیس ٹارچر سیل میں ہو نے والے تشدد کی بر سوں پہلے سنی وہ کہا نیاں آج اس وقت یاد آ ئیں جب صبح مبینہ پو لیس تشدد سے ہلاک ہو نے والے بھٹہ مزدور صغیر عباس کے ورثاء اور علاقہ کے لو گوں کو بہت بڑی تعداد میں ڈسٹرکٹ پریس کلب کے سا منے سڑک پر لاش رکھ کر احتجاج اور آہ زاری کرتے دیکھا ۔
پو لیس کہتی ہے کہ بھٹہ مزدور صغیر عباس نے گرفتاری کے بعد چلتی گاڑی سے چھلانگ ماری جس سے اس کےسر میں چوٹ آ ءی جب کہ ورثاء کا الزام ہے کہ متوفی کو پو لیس نے گرفتاری کے بعد ایک نجی تارچر سیل میں ایسے بہیمانہ تشدد کا نشا نہ بنایا کہ تشدد سے متو فی کی کھوپڑی پھٹ گئی ۔
صغیر عباس کو انتہائی خطرناک حا لت میں نشتر ہسپتال منتقل کیا جہاں وہ کم و بیش دس دن زیر علاج رہا اور زند گی کی بازی ہار گیا
صغیر عباس کی لاش کا پوسٹ مارٹم ہوچکا ہے موت کے اصل اسباب کا تعین تو پو سٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی سا منے آءے گا
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ورثاء کی جانب سے صغیر عباس پر نجی ٹارچر سیل میں پو لیس تشدد کئے جانے کا الزام خاصا بھیانک ہے
جب متوفی صغیر عباس نشتر ہسپتال ملتان میں زیر علاج تھا اس ھوالے سے چند روز قبل اس کی موت کے ھوالے سے ایک خبر میڈیا میں وائرل ہو گئی ۔ جس پر ڈی پی او کو ہنگامی پریس کا نفرنس بلا کر اس کی تردید کرنا پری ، یہ خبر صبح پا کستان کی ویب سا ئٹsubhepak.com.pk پر بھی شا ئع ہو ئی ، جھوٹی خبر کی اشاعت پر بڑی شرمنگی ہو ئی ۔ میں ڈی پی او کی پریس کا نفرنس تو اٹینڈ نہ کر سکا لیکن اسی دن میں نے ڈی پی او صاحب سے ان کے آ فس میں ملاقات کی اور جھوٹی خبر کی اشاعت پر معذرت کی ۔۔ یہ میرا اخلاقی فرض تھا کہ میں اپنی کوتاہی تسلیم کرتے ہو ئے معذرت کر تا سو میں نے کیا ۔ یہاں یہ بات قا بل ذکر ہے کہ یہ میری ڈی پی او آفس میں ڈی پی او صاھب سے پہلی ملاقات تھی
لیکن آج مبینہ پو لیس تشدد کا شکار بھٹہ مزدور صغیر عباس دم توڑ گیا
آج کی خبر سچی ہے کہ صغیر عباس کی پھٹی ہو ءی کھوپڑی اس کا ساتھ نہیں دے سکی اور وہ بد قسمت زند گی کی بازی ہار گیا ۔۔
کل میں نے صغیر عباس کی موت کی جھوٹی خبر کی اشاعت پر ازخود معذرت چا ہی آج سچی خبر پر انصاف کا متلاشی ہوں ۔۔
بھٹہ مزدور صغیر عباس پرنجی ٹارچر سیل میں پو لیس تشدد کا الزام ایک بھیانک اور بڑا الزام ہے ۔۔ کیا انصاف اور قانون صغیر عباس کی پھٹی کھو پڑی کے سبب ہو نے والی المناک موت کا حساب لے گا