انسان کے بنیادی حقوق میں سے صحت مند ماحول جزو لازم ہے، کیونکہ اچھی اور پاک صاف آب و ہوا کسی بھی ملک میں بسنے والے باشندوں کو نہ صرف محفوظ زندگی میسر کرتی ہے بلکہ اس ملک کی مجموعی معیشت کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ، پائیدار ترقی کے حصول کو بھی یقینی بناتی ہے، پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے کی وجہ سے معاشی بحران سے دوچار ہے اور بہت سے مسائل کا شکار ہے، وسائل کی بہتات کے باوجود ہم دنیا میں بہت سے ممالک سے بہت پیچھے ہیں، ارض پاک کو عمدہ سیاسی قیادت کے فقدان کے ساتھ، غیر مؤثر انتظامی ڈھانچے، ناقص منصوبہ بندی، افسر شاہی اور سست،طویل اور صبر آزماء سرکاری طرز عمل جیسی بد ترین مشکلات کا سامنا ہمیشہ سے ہی رہا، پاکستان 2005سے 2015 تک عالمی طور پر طے کردہ 8 ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز جن کے پورا کرنا ایک عالمی ذمہ داری تھی ان میں سے بنیادی اہداف تک پورے کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا اب تو بات اس سے آگے پائیدار ترقی کے اہداف تک پہنچ گئی ہے جس 17 طے شدہ اہداف ہیں جو کہ 2030 تک حاصل کرنے ہیں جس رفتار سے ہم تمام شعبہ جات میں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں یہ اہداف حاصل کرنے جوے شیر لانے کے مترادف ہے، پاکستان میں تقریباً 1 کروڑ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے، صحت کے اعدادوشمار کا احاطہ کیا جائے تو اب بھی سینکڑوں مائیں دوران زچگی موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں اور یہی حال نوزائیدگان اور بچگان کی صحت کے معاملات کا بھی ہے، پاکستان میں آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اگر اس کا یہی حال رہا تو معیشت مزید دباؤ کا شکار ہونے کا خدشہ موجود ہے، ہمارے ملک میں لاکھوں پینے کے صاف پانی جیسی اہم ضرورت اور نعمت سے محروم ہیں، طبقاتی نظام نے معاشرے میں عدم برداشت کو مزید ہوا دے رکھی ہے، دنیا نے چاند ستاروں اور کہکشاؤں کو تسخیرِ کرنے کا سفر شروع کیا ہوا ہے، ہمارے یہاں ابھی تک سکولوں میں بنیادی ضروریات کا بدترین فقدان ہے، لیکن ان تمام مسائل میں سب سے اہم ترین مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا ہے، انسان کو جینے کے لیے سانس تو لینا ہے، مگر جس بدترین طریقے سے ماحولیاتی آلودگی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، انسانی صحت پر اس اثرات ناقابل برداشت حد تک ہونگے، جہاں میونسپل سروسز کی عدم موجودگی اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے گلیاں، محلے غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل ہورہے ہیں، وہاں اس آلودگی میں اضافہ کرنے کے حوالے سے کوئلہ بنانے والی بھٹیاں مزید تباہی پھیلا رہی ہیں ، گزشتہ کئی سالوں پاکستان میں دیگر قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ سموگ (زہریلے دھوئیں) نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، سموگ کی وجہ سے سب سے زیادہ بچے اور زائد العمر لوگ اثرانداز ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے بہت سے نازک انسانی اعضاء جن میں آنکھیں اور پھیپھڑے حد درجہ متاثر ہوتے ہیں، سموگ پیدا کرنے میں جہاں فصلات کے جلنے کا عمل دخل موجود ہے وہاں یہ غیر قانونی طور پر بنائی گئی کوئلے کی بھٹیاں اس مسئلے کو مزید بڑھارہی ہیں، ان بھٹیوں سے سب سے زیادہ جنوبی پنجاب کے اضلاع مظفر گڑھ، بھکر، لیہ اور جھنگ کے علاقے سب زیادہ متاثر ہورہے ہیں، سب سے زیادہ حیران کن بات یہ کہ اکثر یہ بھٹیاں گورنمنٹ کے رقبے پر موجود ہیں، اور کے مالکان اتنے طاقت ور ہیں کہ وہ پوری دیدہ دلیری اور ہمت سے مرکزی شاہراہوں پر ان کو بناکر دھڑادھڑ پورے زور و شور سے قوانین کی دھجیاں اڑانے میں مگن ہیں ایسے میں محکمہ برائے تحفظ ماحولیات کی موجودگی اور کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ، ان بھٹیوں سے اٹھتا ہوا دھواں، جب شاہرات پر آتا ہے تو اس کی وجہ سے بہت سے حادثات رونماء ہوتے ہیں، ایم ایم روڈ جو کہ تاریخی طور پر قاتل روڈ ہے اس پر چاندنی چوک سے لے کر مظفر گڑھ تک ہزاروں کی تعداد میں کوئلے کی بھٹیاں جا بجا موجود ہیں مگر حیران کن طور پر ارباب اختیار کی معصومانہ غفلت سمجھ سے بالا تر ہے، ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ہم من حیث القوم احتیاط کے بجائے علاج والی منزل پر پہنچ کر ہوش کے ناخن لیتے ہیں، ماحولیاتی آلودگی ایک فرد کا نہیں پوری قوم اور پوری دنیا کا مسئلہ ہے، محکمہ برائے ماحولیاتی تحفظ کو ان زہر اگلتی غیر قانونی بھٹیوں کے مکمل تدارک کیلئے اپنا مؤثر اور بھرپور کردار ادا کرنا پڑے گا تاکہ اہل وطن کو کم از کم سانس تو صاف ستھرا اور محفوظ مل سکے اس مسئلے کے پائیدار حل کے لیے جنوبی پنجاب کے انتظامی افسران کو اپنے تمام تر اختیارات کو بروئے کار لا کر ان ماحول دشمن بھٹیوں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جڑ سے ختم کرنا ہوگا ، ان تمام مسائل کے باوجود پاکستان میں بہت سے ایسے شاندار وسائل موجود ہیں کہ جن کی مثال دنیا میں نہیں ملتی شرط نیک نیتی کی ہے، ارض وطن میں بہترین قدرتی اور انسانی وسائل موجود ہیں کہ جن کے بہترین استعمال کو یقینی بنا کر اس ملک کو دنیا میں عظیمی سے عظیم تر بنایا جا سکتا ہے، "بقول احمد ندیم قاسمی،” خدا کرے میری ارض پاک پر اترے،.
وہ فصل گل جس اندیشہ زوال نہ ہو
3 Attachments