ملک مقبول الہی جوکہ لیہ کے تحقیقاتی رپوٹنگ کا ایک بڑا نام ہیں ، انہوں نے رات جب فون پر اس بات کا انکشاف کیا کہ شہید لیہ ضغیر عباس بلوچ جس کی لیہ پولیس نے تشدد کے دوران سر کی ہڈی توڑ دی تھی ، بعدازاں اپنی تشدد کی واردات کو چھپانے کیلئے زخموں سے چور ضغیر عباس بلوچ کے منہ پر پولیس نے شراب ڈال تھی تاکہ تشدد کی کہانی کو یہ رنگ دیا جاے کہ ضغیر عباس بلوچ نے شراب پی ہوئی تھی اور یوں اسکی یہ حالت ہوگئی ، لیکن پولیس کی یہ کہانی اسوقت الٹ گئی ، جب ڈاکٹروں کے میڈیکل میں اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ ضغیر عباس بلوچ نے شراب پی ہوئی تھی تو پولیس کے بڑوں اور چھوٹوں نے دوسری جھوٹی کہانی یہ لانچ کردی کہ ضغیر عباس بلوچ نے کھر چوک کے پاس پولیس گاڑی سے چھلانگ لگائی تھی، یوں اس کے سر کی کھوپڑی ٹوٹ گئی تھی ، اس کیلئے بھی جو ڈاکٹروں کی طرف سے میڈیکل کیا گیا ، اس میں بھی لیہ پولیس کا یہ دعوی بھی ریت کا رسہ ثابت ہوا مطلب جھوٹ پلس جھوٹ اور برابر جھوٹ ، ملک مقبول ، جب یہ پولیس گردی اور ضغیر عباس بلوچ پر کئے گئے ظلم کی یہ دکھ بھری کہانی سنا رہے تھے تو راقم الحروف ایک طرف بے حد تکلیف سے گزر رہا تھا تو دوسری طرف اس بات کا احساس ہورہا تھاکہ پولیس وردی میں ایسے کریمنل اتنی تعداد میں موجود ہیں کہ جس کا کوئی حد اور حساب نہیں ہے . اب حالت یہ ہے کہ ریجنل پولیس آفیسر ڈیرہ غازی خان ضغیر عباس بلوچ کے گھر پہلے گئے ، ادھر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لیہ عثمان باجوہ نے پہلے پولیس ٹاوٹ بھیجے اور پھر خود ضغیر عباس کے گھر پہنچ گئے ، اب سمجھنے کی بات تھی کہ آر پی او ڈیرہ غازی خان سے ڈی پی او لیہ عثمان باجوہ ایسا کیوں کررہے ہیں ;238; ان کو اچانک ضغیر عباس کا خیال کیسے آگیا، جس کو مار مار پولیس نے سرکھوپڑی توڑ کر منوں مٹی کے نیچے پہنچا دیا تھا ، اس کا جواب لیہ کے صحافی ملک مقبول الہی اور راقم الحروف بحث کے دوران یہ ڈھونڈا ، جس پر ہم دونوں کا اتفاق تھا، وہ یہ کہ ضغیر عباس بلوچ کیساتھ تشدد اور یہ ہنگامی کاروائی ایس ایچ اور تھانہ صدر لیہ اور بیٹ دیوان پولیس چوکی کے اے ایس آئی تک نہیں تھی بلکہ اس بھیانک کاروائی کا حکم ڈی ایس پی اعجاز رندھاوا نے دیا تھا ، جس کو اس تشدد کے واقعہ کے بعد ہی لاہور تبدیل کردیا تھا ، اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈی ایس پی رندھاوا کو اس کاروائی کا حکم ڈی پی او لیہ عثمان باجوہ نے دیا تھا . اس کا جواب ہاں میں یوں ملتا ہے کہ ڈی پی او عثمان باجوہ کو ڈی ایس پی اعجاز رندھاوا کو لاہور بھجوانے کی جلدی تھی . اسی طرح ڈی پی او لیہ عثمان باجوہ جوکہ لیہ پولیس کے سربراہ ہیں نے بار بار اس بات کو دہرایا ہے کہ ضغیر عباس بلوچ نے پولیس وین سے چھلانگ لگائی ہے اور یوں اس کے سر کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹی ہے . اور موت کا شکارہوا ہے ، موصوف سمیت پولیس معصوم ہے ، یہ کہانی بھی جھوٹ ہے جوکہ ڈاکٹروں کی رپورٹ نے ثابت کردی ہے ۔ پھر جلدی میں ایف آئی آر درج کرکے ڈی ایس پی رندھاوا کا نام نہیں ڈالا گیا ہے . اور بہت باریک واردات سے ضغیر عباس بلوچ کے قتل پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی گئی ، ان اٹھائے گئے اہم سوالات کی روشنی میں یہ بات واضع ہے کہ لیہ پولیس کے بڑے کیس خراب کرکے چھوٹے ملازمین کو اس لیے بچانا چاہتے ہیں تاکہ ان کا نام ضغیر عباس بلوچ کے قتل کی ایف آئی آر میں نہ آئے ، اور کہانی ضغیر عباس بلوچ شہید لیہ کی قبر کی مٹی خشک ہونے سے پہلے ختم کردی جاے ۔
ایک اور کہانی بھی سن لیں تاکہ سند رہے اور پتہ چلے کہ ایسے تشدد کے واقعات ہوتے کیوں ہیں . اس بار گاوں گیا تو شبیر سنجرانی ملنے آیا تو گلے ملتے ہی روپڑا ۔ میں ایسی صورتحال کی توقع نہیں کررہا تھا اور نہ ہی اس کیلئے تیار تھا ۔ عید کے دن بھلا کیوں کوئی ایسے بچوں کی طرح روئے گا . ہماری دھرتی کے مظلوم لوگ تو اب ظلم کے عادی ہوچکے ہیں ، پولیس گردی تو ان کو پتہ ہے ان کی قسمت میں لکھی جا چکی ہے ۔ یوں بڑی سے بڑی زیادتی کو پی جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں لیکن 62 سال کی عمر کا بزرگ شبیر سنجرانی کیساتھ سی آئی سٹاف پولیس لیہ کے انچارج خرم ریاض نے کچھ ایسا سلوک کیا تھا کہ اس کے سارے ضبط ٹوٹ گئے، یوں میرے گلے ملتے ہی بچوں کی طرح زارو قطار رونے لگ گیا ۔ میرے کندھوں میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ میں شبیر سنجرانی کے گرتے آنسووں کو برداشت کرسکتا ۔ اس کے باوجود گلے لگائے رکھا ، اس کو منانے کی کوشش کرتا رہا ہے، نعمان ، موچھا، کو کہا بیٹا چاچا شبیر کو پانی پلاءو ، ادھر تسلی دینے لگ گیا لیکن ا س کی آنکھوں میں لگی آنسووں کی جھڑی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ اس کے ساتھ آئے دوبیٹوں کے چہروں کا رنگ اترگیا کہ بابا کو کیا ہوگیا ہے . لیکن اس بات سے تو وہ بھی واقف تھے کہ پولیس جب تھانہ لے جاتی ہے تو کیا سلوک ہوتا ہے . ایسے بھی واقعات ہیں کہ بیان کرنے کیلئے الفاظ نہیں ہیں ، پورے معاشرے کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ پھر اس بات کو بھی جانتے تھے کہ جب پولیس گھر سے کسی کو لے جائے تو اس کی واپسی کیلئے اور روا رکھے گئے بدترین سلوک سے بچانے اور اپنے بھائی، بزرگ اور بیٹے کی رہائی کیلئے کیا کیا پاپٹر بیلنے پڑتے ہیں ;238; کتنے سرداروں اور ارکان اسمبلی کے آگے ہاتھ جوڑ کر اپنے بے گناہ ہونے کے باوجود اپنی بے گناہی کیلئے جتن کرنے پڑتے ہیں یا پھر جب تک جان نہیں چھوٹتی ہے ان کے حکم کی تعمیل کرنی پڑتی ہے ۔ ان کے ڈیروں پر اپنے کام چھوڑ کر ان کی تابعداری کرنی پڑتی ہے ۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انہی کے پاس جان پڑتا ہے جوکہ پولیس کو خود بھجوا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور انہی کے حکم کی تعمیل پولیس کررہی ہوتی ہے کہ فلاں کو سبق سکھانا ہے اور شام سے پہلے اس کا خاندان منت ترلوں سے لیکر معافی کا طلبگار بن کر ان کے ڈیرے پر آئے، نواز لیگی رکن صوبائی اسمبلی لیہ اعجاز اچلانہ نے پچھلے دور میں ایسی مثالیں قائم کی تھیں ۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ پولیس کے ظلم سے جان چھڑانے کیلئے جانے والوں کو گالیوں اور بدکلامی کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ اس سلوک کے پیچھے وجہ اکثر یہی ہوتی ہے کہ آپ نے ووٹ نہیں دیے تھے یا پھر آپ نے میرے خلاف باتیں کی ہیں ، لحاظ آپ ایسے ہی سلوک کے حقدار ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عدالتوں تک پہنچتے پہنچتے ایسے بے گناہ افراد ساری ذلت اور رسوائی بھگت چکے ہوتے ہیں ۔ پولیس تشدد تک کرچکی ہوتی ہے ۔ پولیس ہتھکڑیاں لگا کر جانوروں جیسا سلوک کرچکی ہوتی ہے ۔ انصاف کا جب دروازہ کھلتا ہے ،اسوقت تک پارٹی ختم ہوچکی ہوتی ہے ۔ مطلب وہ سارا کچھ وقت سے پہلے ہوچکا ہوتا ہے جس کے وہ قانونا اور اخلاقا حقدار نہیں تھے ۔ کوشش کے بعد شبیر سنجرانی کو حوصلہ دے کراپنے ساتھ بٹھایا ۔ حوصلہ دیا تو کہانی کھلی کہ ان کے بیٹے سلیم پر پیٹر چوری کا الزام لگایا گیا تھا ۔ اور سی آئی سٹاف لیہ کے انچارج خرم ریاض نے پولیس نفری کے ہمراہ اپنے تئیں کامیاب کاروائی کرتے ہوئے سلیم کے 62 سالہ باپ شبیرسنجرانی کو بدترین سلوک کرتے ہوئے اٹھا لیا تھا، اس کو پہلی گستاخی خرم ریاض نے یہ بتائی کہ اس نے رات کو گھر کی طرف بڑھتی پولیس پر بیٹری کی لاءٹ کیوں ماری ہے اور بیٹیوں ، بہو اور پوتوں کے سامنے تشدد شروع کردیا . ادھر شبیر سنجرانی کیخلاف کوئی مقدمہ تھا اور نہ ہی کوئی ایف آر درج تھی ۔ انچارچ سی آئی سٹاف لیہ کے انچارج خرم ریا ض نے سارے ضابطے اور قانون کو پش پشت ڈال کر سلیم کو ٹریس کرنے کی بجائے اس کے بوڑھے باپ کو تھانہ لے آیا تھا ۔ شبیر سنجرانی کے بچوں نے اس پریشان کن صورتحال میں وہی طریقہ استعمال کیا کہ بھاگ دوڑ کی ، منت ترلے، صفائیاں اور ہاتھ جوڑ کراپنے باپ کی رہائی کیلئے کوئی گھر نہیں چھوڑا ۔ آخر کار رکن قومی اسمبلی لیہ ملک نیاز جھکڑ کے ایک عزیز نے اس صورتحال میں 62 سالہ بزرگ شبیر سنجرانی کی سی آئی سٹاف لیہ کے انچارج خرم ریاض سے جان چھڑائی اور وہ روتے دھوتے گھر جا پہنچا ۔ لیکن اس کے باوجود وہ کردار جوکہ شبیر سنجرانی اور اس کے بیٹے سلیم کو تھانہ اور جیل میں دیکھنے کے متمنی تھے، انہوں نے بھی اپنی چال چلنے کا سلسلہ جاری رکھا، اور پولیس کے ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رہا اورسنجرانی مزارع کی حٰیثیت میں جو رقبہ کاشت کررہے تھے اس کو چھوڑ کر بچوں اور عورتوں سمیت گھرغائب ہونے پر مجبور ہوگئے ۔ آخرکار شبیر شنجرانی اور اس کے خاندان کے افراد رکن قومی اسمبلی ملک نیاز جھکڑ سے جا ملے، ان کے سامنے آہ وزاری کی اور بتایا کہ جھوٹی درخواست پر پولیس نے چادر چار دیواری سے لیکر سارے ظلم روا رکھے ہیں ، بچوں اور عورتوں کی موجودگی میں تشدد کیاگیا ہے ۔ یوں ان کو پولیس کی زیادہ محبت سے بچانے کیلئے ملک نیاز جھکڑ نے اپنے رکن قومی اسملبی کے لیٹر ہیڈ جوکہ شبیر سنجرانی کے بیٹے سلیم کے پاس تھا جوکہ اب میرے پاس بھی موجود ہے ، اس پر ملک نیاز جھکڑ نے لکھا کہ ;84;o whom it my concern , ;80;olice ;73;ncharge ، آداب سلیم سنجرانی کے خلاف اکثر جھوٹی درخواستیں دی جاتی ہیں ۔ یہ میری ذمہ داری ہے، ان کو پیش کردونگا ، یقین رکھیں یہ بے گناہ ہوتا ہے، دستخط ملک نیاز احمد جھکڑ ، رکن قومی اسمبلی ، لیہ ۔ راقم الحروف نے اس پریشان کن صورتحال میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عثمان باجوہ کے نوٹس میں لانے کیلئے فیس بک کے اپنے پیچ klasrabrothers پر شبیر سنجرانی کیساتھ سی آئی اے سٹاف کے انچارج خرم ریاض کے بدترین سلوک کے بارے میں لکھا اور ڈی پی او سے اس معاملے کی تحیقیقات کا مطالبہ کیا ، پوسٹ ایک بار چلی ، پھر چلائی تاکہ شاید اسپشل برانچ سمیت کوئی ذمہ دار ڈی پی او لیہ عثمان باجوہ کے نوٹس میں لائے گا لیکن بے سود ، اس دوران رحیم یار خان پولیس نے صلاح الدین کو تشدد کرکے موت کے منہ میں دھکیلاتو پھر پوسٹ چلائی تاکہ لیہ میں ایسے واقعہ ہونے سے پہلے ڈی پی او لیہ عثمان باجودہ کوئی اچھی مثال کرتے ہوئے انچارج تھانہ سی آئی اے سٹاف خرم ریاض کیخلاف ایکشن لیں گے لیکن مایوسی ہوئی ، پھر انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب عارف نواز اپنی پنجاب پولیس کو درست کرنے کیلئے میدان میں ایک ویڈیو پیغام کیساتھ نکلے کہ اب ایسا ہوا تو ایسا ہوگا اور ویسا ہوگا ، راقم الحروف کو پھر حوصلہ ملا ، اور پھر شبیر سنجرانی کیساتھ سی آئی اے سٹاف لیہ کے انچارج خرم ریاض کی طرف سے کیے گئے تشدد کی پوسٹ فیس بک پر لگائی لیکن بے سود ، اس کے بعد وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ بیٹ دیوان چوکی ، پولیس لیہ نے رات گئے ایک بھٹہ مزدور ضغیر عباس بلوچ اور اس کے بھائی کو سوتے ہوئے گھر سے اٹھایا، جن پر کوئی موبائل چوری کی درخواست تھی اور پھر 20 سالہ ضغیر عباس بلوچ پر ایسا تشدد کیا کہ سی آئی سٹاف کے خرم ریاض کے شبیر سنجرانی پر تشدد کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ گئے ، مطلب بیٹ دیوان چوکی پولیس نے ضغیر عباس بلوچ کے سرکی کھوپڑی توڑ دی اور پھر ضغیر عباس بلوچ نے اپنے پیروں پر اپنے گھر کہاں جانا تھا، اپنی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والا ضغیر عباس بلوچ قبر میں جا پہنچا . ضلعی ہسپتال لیہ سے نشتر ہسپتال ملتان تک اس کے زخموں سے چور جسم کو علاج کے نام پر گھمایا گیا لیکن سر پر پولیس نے تشدد کے دوران ایسی کاری ضرب لگائی تھی کہ ضغیرعباس بلوچ کی لاش گھر پہنچی ہے اور جیسے پہلے عرض کیا ہے، اب ضغیر بلوچ منوں مٹی کے نیچے جا چکا ہے ۔ سی آئی اے سٹاف خرم ریاض کے تشدد کے شکار شبیر سنجرانی کے واقعہ کو اس لیے لکھا ہے کہ ڈی پی او لیہ عثمان باجوہ جیسے افسران جب اپنے ایس ایچ اوز یا سی آئی اے سٹاف کے انچارج کی تشدد کی کاروائیوں کو نظرانداز کرتے ہیں تو پولیس کا حوصلہ بڑھتا ہے کہ وہ کسی کی بھی کھال اڈھیر سکتے ہیں . وہ کسی کے گھر داخل ہوسکتے ہیں .اور پھر بدقسمتی سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پولیس کے شیرجوان پھر 20 سالہ ضغیر عباس بلوچ جیسے معصوم جوانوں کے تشدد سے سر کھول دیتے ہیں ، ان کے سر کی کھوپڑی توڑدیتے ہیں ، اسی طرح لیہ کے ڈی پی او عثمان باجوہ نے تھانہ سٹی کے ایس ایچ او عرفان باجوہ کی جانب سے شہر کے ایک بچے پر تشدد کے واقعہ کو نوٹس میں آنے کے بعد پی گئے تھے ، اس واقعہ میں لمز میں قانون کی تعلیم حاصل کرنیوالی طالبہ وردا رفیق نے اپنے بھائی پر تشدد پر فیس بک پر اس ظلم اور زیادتی کیخلاف تھانہ سٹی جاکر لائیو احتجاج کیا تھا ، مقامی میڈیا چھوڑیں ، عالمی میں واقعہ رپورٹ ہوا ، احتجاج کی ویڈیو وائرل ہوئی لیکن عثمان باجوہ ڈی پی او، تھانہ سٹی لیہ کے ایس ایچ او عرفان باجوہ کے سنگین فعل کو پی گئے ۔ آپ ہی بتائیں جب ڈی پی او اتنے سنگین واقعات پر ایکشن کی بجائے ، داد دے گا تو کیا ہوگا . یہی ہوگا پولیس ضغیر عباس بلوچ جیسے نوجوانوں کا سر کھول کر ان کو قبر میں پہنچائی گی ۔ میں یقین سے کہہ سکتاہوں ڈی پی لیہ عثمان باجوہ شبیر سنجرانی اور لمز لاہور میں زیر تعلیم طالبہ وردا رفیق کے بھائی پر تشدد پر ایکشن لیتے تو ضغیر عباس بلوچ پولیس تشدد کا شکار ہوکر موت کے منہ میں نہ جاتا لیکن ڈی پی او بھلا کس کی سنتے ہیں ;238; انہیں پتہ ہے . ان کا کلہ مضبوط ہے ;238; ان کیلئے قانون گھر کی لونڈی ہے ۔ ڈی پی او لیہ عثمان باجوہ کو ابھی تک پنجاب کے وزیراعلی عثمان بزدار نے لیہ میں ڈی پی او کیوں لگایاہوا ہے، ڈی ایس پی اعجاز رندھاوا اور ڈی پی او لیہ کو ضیغر عباس بلوچ کے قتل کی ایف آئی آر میں ملزم کی حیثٰت میں ہونا چاہیے تھا ۔ کیا عثمان بزدار کی ایک شہید لیہ ضغیر عباس بلوچ کی پولیس تشدد سے لاش ملنے پر تسلی نہیں ہوئی ہے . یا ڈی پی او لیہ عثمان باجوہ کی آر پی او بہاولپور عمران محمود کی طرح تگڑی سفارش ہے . لیکن عثمان بزدار یاد رکھیں ، ظلم کی حکومت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی ہے ۔ بزدار صاحب ، وہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے، تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا ، اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا یقین تھا ۔