میں ایک سخت سردی کی رات میں لیہ سے فیصل آباد کا سفر کر رہا تھا ہر طرف دھند تھی حد نگاہ صفر تھی ڈرائیور جو کافی دیر سے آگے تک دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا میں اس سے گویا ہوا سجاد کتنا مشکل ہوتا ہے یار یہ ڈرائیونگ کرنا کہتا ہے صاحب جی کوئی بیس لاکھ کی گاڑی چلانے کے لیے ایسے ہمیں تھوڑی ہی دے دیتا ہے اپنی اتنی قیمتی چیز کے لیے ہمارا ڈرائیونگ لائسنس اور ٹیسٹ تک لیا جاتا ہے۔سجاد کی یہ باتیں میرے دل پر لگیں میں سوچ میں پڑ گیا کہ ہم کیسی قوم ہیں جو ایک گاڑی جو کہ اتنی قیمتی نہیں ہے جتنے کہ ہمارے بچے اس کے لیے ہم لائسنس کے بغیر ایک ڈرائیور نہیں رکھتے اور ہم اپنے بچوں کے لیے اساتذہ چنتے وقت ان باتوں کا خیال تک نہیں رکھتے ؟۔ کیا ہی خوب ہو کہ ڈرائیونگ لائسنس کی طرح اساتذہ کو بھی لائسنس جاری ہوں وہ پڑھانے سے پہلے سائیکلاجیکل ٹیسٹ کلیئر کر کے آئیں ۔لائسنس ملے پھر وہ پڑھائیں چاہے پرائیوٹ سیکٹر ہو یا پبلک ۔ ہم اگر دیکھیں تو گورنمنٹ کے اداروں میں اساتذہ ایک پورے پراسس سے آتے ہیں انتہائی قابل لوگ لیکن جب وہ گورنمنٹ کے سیکٹر میں آتے ہیں تو پھر پتہ نہیں ان کو کیا ہوتا ہے اور پرائیویٹ سکولز خصوصا جنوبی پنجاب کے سکولز دیکھ لیں بچوں کو پڑھانے کے لیے کوئی کوالیفائیڈ سٹاف نہیں ہوگا لیکن رزلٹ گورنمنٹ اداروں سے بہتر ؟ پہلے ایسے نہیں تھا گورنمنٹ سکولوں کا ماضی بہت خوبصورت رہا ہے بہت سے ڈاکٹر ، انجینئر ،بیوروکریٹ ٹاٹ سکولوں سے نکل کر ہی آگے گئے ہیں ۔ اس کی وجہ پر اگر ہم غور کریں توجو وجہ میرے سامنے آئی ہے وہ ہے لیڈر شپ ، مینجمنٹ جس کی شدید کمی گورنمنٹ سکولوں میں نظر آئی ہے کیا ہی اچھا ہوکہ تمام سرکاری ملازمین کے بچوں کا سرکاری سکولوں میں پڑھنا لازمی قرار دیا جائے تمام سرکاری ملازمین کا سرکاری ہسپتالوں میں علاج کروایا جائے پھر رنگ بدلتے دیکھیے گا ہر سرکاری ادارے میں سے ہیرے ہی نکلیں گے پھر بچوں کو تعلیم بھی اس لیول کی ملے گی اور اداروں کا معیار بھی اس لیول کا ہوگا۔لوگ چاہتے ہیں کہ گورنمنٹ اداروں خصوصا سکولوں ، ہسپتالوں میں بہتری آئے میں نے جب جھوک فورم بنا کر گورنمنٹ سکولوں میں بچیوں کے لیے کتابیں ، جرابیں ، جرسیاں اکھٹی کی تو یقین جانیے میری اُمیدوں سے کہیں زیادہ دوستوں نے ساتھ دیا لوگ چاہتے ہیں کہ بچوں کا اس معیار کی تعلیی سہولت میسر آئے اور بات اب یہیں تک نہیں رکی ہوئی نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ میں بھی میں نے یہ ہی بے چینی دیکھی ہے کہ اساتذہ کا وقار بحال کروایا جائے وہ عزت وہ وقار جو ایک گورنمنٹ ٹیچر کی کسی دور میں ہوا کرتی تھی وہ واپس لی جائے۔نوجوان سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سکولوں کی کارکردگی کو لوگوں تک پہنچا رہے ہیں ۔لیہ کے اساتذہ کے الیکشن میں اس دفعہ نوجوان اساتذہ اپنا پورا پینل لے کر سامنے آئے ہیں میری ان کے ضلعی صدر کے اُمیدوار اظہر اقبال سے بات ہوئی جو کہ اسلام آباد کی یونیورسٹی سے ایم فل جیالوجی میں ہے کہ یہ الیکشن کیوں لڑنے لگے ہیں جواب صرف ایک تھا اُستاد کا وقار بحال کروانا ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہم بچوں کو پڑھائیں اور اس لیول کا پڑھائیں کہ وہ پرائیویٹ سکولز کا مقابلہ کریں ۔آج بات تعلیم پر کر رہے ہیں تو مجھے ذاتی طور پر مار نہیں پیار کے لگے بورڈ سے سخت نفرت ہے ۔نفرت کی وجہ یہ ہے انہوں نے استاد کو شاگرد کے سامنے چھوٹا کر دیا ہے اب اگر کوئی اُستاد کسی شاگرد سے اونچی آواز میں بات بھی کر لے تو شاگرد اپنی شان میں گستاخی تصور کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کروں فون کہ تم نے مجھے مارا ہے نوکری پیاری ہے تو پھر مجھے تنگ مت کرنا۔ ایک اُستاد کے مطابق کلاس روم بڑی تھی موسم ہلکا ٹھنڈا تھا ایک نے کہا پنکھا چلائیں اُستاد نے منہ کیا تو اس نے اپنا بیگ اُٹھایا اور کہا کہ( اچھا اُستاد جی تو کر گھن اپنی مرضی اساں ویندے پئے ہیں)اُستاد صاحب آپ اپنی مرضی کر لیں میں جا رہا ہوں ۔ میں کبھی بھی ان اساتذہ کے حق میں نہیں جو بچوں پر تشدد کر کے تسکین محسوس کرتے ہیں میں چاہتا ہوں کہ بورڈ لگانے کی بجائے اساتذہ پر کام کیا جائے ان کی ٹریننگ کی جائے ان کے اوپر اچھے منیجر لگائے جائیں گے۔بچوں کو پیار بھی دیا جائے اور جہاں غلطی کریں ان کی سرزنشن بھی کی جائے مغرب کی پالیسی کے نتائج ہمارے پاس ٹھیک نہیں آنے آپ رزلٹ اُٹھا کہ دیکھ لیں وہ رزلٹ اگر جھوٹ پر مبنی نہ ہوا تو پتہ چل جائے گا کہ بچوں کے رزلٹ کیسے رہے ہیں ۔اس بورڈ کو لگانے کی بجائے ہمیں یہ اساتذہ کو سمجھانا ہوگا میرے ابا جی کہتے ہیں۔ منجھیں دے منہ تے کٹے نہیں کوہیندے ہوندے(اساتذہ کو شاگردوں کے سامنے چھوٹا ظاہر نہ کریں)ہمیں اپنی پالیسیوں پر غور کرنا ہوگا۔ نوٹ(دوست اپنی رائے سے آگاہ ضرور کریں )