اسلام آباد ۔ وزیر مملکت براءے ریو ینو حماد اظہر نے قومی بجٹ پیش کرتے ہو ءے پبلک پرائیویٹ پارٹنز شپ کے تحت میا نوالی تا مظفر گڑھ روڈ کو دو رویہ بنا نے کا اعلان کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ ترقیا تی بجٹ کے تحت 156 ارب روپے نیشنل ہاءی وے اتھارٹی کے زریٰعے خرچ کءے جا ءیں گے ۔ مکمل کءے جانے والے پراجیکٹ میں میا نوالی تا مطفر گڑھ روڈ کو بھی دورویہ سڑک بناءے جا نے کا میگا پرا جیکٹ بھی شامل ہے
ڈیلی پاکستان آن لائن کے مطابق قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے ریونیوحماد اظہر نے کہا کہ پچھلے پانچ سال میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ، بہت سے کمرشل قرضہ جات زیادہ شرح سود پر لیے گئے ان کا کہنا تھا کہ یہ پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو آگے لانے کا وقت ہے، 1973 میں ہم ایک ساتھ ملے اور ملک کا آئین بنا، ہم اس ملک کے آئین کے محافظ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مجموعی قرضہ اور ادائیگیاں 31 ہزار ارب روپے تھیں جن میں سے 97 ارب ڈالر بیرونی قرضہ جات تھے۔ پچھلے ادوار میں بعض کمرشل قرضے زیادہ سود پر لیے گئے۔ گزشتہ دو سال کے دوران سٹیٹ بینک کے ذخائر 18 ارب سے کم ہو کر 10 ارب ڈالر سے کم رہ گئے۔ عالمی سطح پر کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ بلند ترین سطح پر 20 ارب ڈالر اور تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔
حماد اظہر نے بتایا کہ پچھلے پانچ سال میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور ملک کا مالیاتی خسارہ 2260 ارب روپے کی سطح پر پہنچ چکا تھا۔ بجلی کے نظام کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا جس پر 38 ارب روپے ماہانہ سود ادا کرنا پڑا۔
ٹیکس وصولیوں میں اضافہ
بجٹ 2019-20ءمیں ہماری بنیادی اصلاح ٹیکس میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 11 فیصد سے بھی کم ہے جو علاقے میں سب سے کم ہے۔ صرف 20 لاکھ لوگ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں جن میں سے چھ لاکھ ملازمین ہیں۔ صرف 380 کمپنیاں کل ٹیکس کا 80 فیصد سے بھی زیادہ ادا کرتی ہیں، کل تین لاکھ 39 ہزار بجلی اور گیس کے کنکشن ہیں جبکہ 40 ہزار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں۔ اس طرح کل 31 لاکھ کمرشل صارفین میں سے صرف 14 لاکھ ٹیکس دیتے ہیں، بینکوں کے مجموعی طور پر تقریباً پانچ کروڑ اکاﺅنٹ ہیں جن میں سے صرف 10 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ایک لاکھ کمپنیوں میں سے صرف 50 فیصد ٹیکس دیتی ہیں۔ بہت سے پیسے والے لوگ ٹیکس میں حصہ نہیں ڈالتے، نئے پاکستان میں اس سوچ کو بدلنا ہو گا، جب تک ہم اپنے ٹیکس کے نظام کو بہتر نہیں کریں گے، پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔
تاریخی طور پر ہم نے صحت، تعلیم، پینے کے پانی، شہری سہولیات اور لوگوں سے متعلق کسی بھی چیز پر مطلوبہ اخراجات نہیں کئے۔ اب اس مقام پر آ چکے ہیں کہ قرضوں اور تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے بھی قرض لینا پڑتا ہے، اس صورتحال کو بدلنا ہو گا۔ سول اور عسکری بجٹ میں کفایت شعاری کے ذریعے بچت کی جائے گی، اس کے نتیجے میں سول حکومت کے اخراجات 460 ارب روپے سے کم کر کے 437 ارب روپے کئے جا رہے ہیں جو کہ پانچ فیصد کمی ہے، عسکری بجٹ 1150 ارب روپے پر مستحکم رہے گا، بچت کے ان مشکل فیصلوں کیلئے میں وزیراعظم عمران خان کے تدبرا ور عسکری قیادت خصوصا آرمی چیف کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میں یہاں واضح کرنا چاہوں گا کہ ان کا دفاع اور قومی خودمختاری ہر شے پر مقدم ہے، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اپنے وطن اور لوگوں کے دفاع کیلئے پاک فوج کی صلاحیت میں کمی نہ آئے۔
کمزور طبقوں کا تحفظ
بجلی کے صارفین میں تقریباً 75 فیصد ایسے ہیں جو ماہانہ 300 یونٹ سے بھی کم استعمال کرتے ہیں، حکومت ایسے صارفین کو لاگت سے بھی کم نرخوں پر بجلی فراہم کرے گی جس کیلئے 200 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ حکومت نے غربت کے خاتمے کیلئے ایک نئی وزارت قائم کی ہے جو ملک میں سماجی تحفظ کے پروگرام بنائے گی اور ان پر عملدرآمد کرے گی۔ احساس پروگرام سے مدد حاصل کرنے والوں میں انتہائی غریب، یتیم، بیوائیں، بے گھر ، معذر اور بیروزگار شامل ہیں، 10 لاکھ مستحق افراد کو صحت مند خوراک فراہم کرنے کیلئے ایک نئی راشن کارڈ سکیم شروع کی جا رہی ہے۔ ماﺅں اور بچوں کو خصوصی صحت مند خوراک مہیا کی جائے گی، 80 ہزار مستحق لوگوں کو ہر مہینے بلاسود قرضے دئیے جائیں گے۔ 60 لاکھ خواتین کو ان کے اپنے سیونگ اکاﺅنٹ میں وظائف میں فراہمی اور موبائل فون تک رسائی دی جائے گی۔ 500 کفالت مراکز کے ذریعے خواتین اور بچوں کو فری آن لائن کورسز کی سہولت میسر کی جائے گی۔ معذور افراد کو وہیل چیئر اور سننے کے آلات فراہم کئے جائیں گے، تعلیم میں پیچھے رہ جانے والے اضلاع میں والدین کے بچوں کو سکول بھیجنے کیلئے خصوصی ترغیبات دی جائیں گی۔ عمررسیدہ افراد کیلئے احساس گھر بنانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے، احساس پروگرام کے تحت بی آئی ایس پی کے ذریعے 57 لاکھ انتہائی غریب گھرانوں کو 5 ہزار روپے فی سہ ماہی نقد امداد دی جاتی ہے جس کیلئے 110 ارب روپے کا بجٹ مقرر ہے۔ افراط زر کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے سہ ماہی وظیفے کو 5000 ہزار روپے سے بڑھا کر 5500 روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غریبوں کی نشاندہی کرنے کیلئے سماجی اور معاشی ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے، یہ کام مئی 2020 ءتک مکمل کر لیا جائے گا اور اس دوران 3 کروڑ 20 لاکھ گھرانوں اور 20 کروڑ آبادی کا سروے کیا جائے گا۔ 50 اضلاع میں بی آئی ایس پی سے مدد حاصل کرنے والے خاندانوں کے 32 لاکھ بچے 750 روپے فی سہ ماہی وظیفہ حاصل کرتے ہیں جس کا مقصد سکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد کم کرنا ہے۔ اس پروگرام کو مزید 100 اضلاع تک توسیع دی جا رہی ہے اور بچیوں کے وظیفے کی رقم 750 روپے سے بڑھا کر 1000 روپے کی جا رہی ہے۔