قومی اسمبلی کے اجلاس میں پرائیویٹ ممبرزڈے پرپیپلزپارٹی کے ممبرقومی اسمبلی سیّدنویدقمرنے مخنث افرادکے حقوق کے تحفظ ، امداد، بحالی، فلاح و بہبود اوران سے منسلک اوران کے ضمنی امورکے لیے احکام کرنے کابل ’’مخنث افرادحقوق کاتحفظ بل ‘‘ سال دوہزاراٹھارہ ایوان میں پیش کیا۔سینیٹ اس بل کی منظوری پہلے ہی دے چکاہے۔جے یوآئی (ف) کی ایم این اے نعیمہ کشورنے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کوعجلت میں پاس نہ کیاجائے۔اسے اسلامی نظریاتی کونسل کوبھیجاجائے اورکونسل کی شرعی رائے لی جائے۔وزیرپارلیمانی امورشیخ آفتاب احمدنے بل کی مخالفت نہیں کی۔سپیکرنے کہا کہ بل پہلے سرکولیٹ کیا جاچکا ہے۔آپ نے بل پڑھنے کے بعدہی ترمیم دی ہے سپیکرنے ایوان کی رائے لی توصرف تین ممبران نے نعیمہ کشورکی ترمیم کے حق میں رائے دی اکثریت نے ترمیم کومستردکردیا۔وزیرمملکت پیرامین الحسنات غیرجانبداررہے۔ایوان نے کثرت رائے سے سینٹ سے پاس کردہ اس بل کی منظوری دے دی۔ سپیکرنے شق واربل کی منظوری لی۔قانون کے تحت مخنث افرادکواپنی خوداختیارکردہ جنسی شناخت کے مطابق پہچانے جانے کاحق حاصل ہوگا۔جنسی شناخت کے طورپررجسٹر کروانے کاحق حاصل ہوگا۔اٹھارہ سال کی عمرکوپہنچنے کے بعدانہیں شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اورپاسپورٹ پرنادراسے اپنی خوداختیارکردہ جنسی شناخت کے مطابق اپنے آپ کورجسٹرکروانے کاحق حاصل ہوگا۔ مخنث کے خلاف امتیازنہیں برتاجائے گا۔ملازمت، تجارت یاپیشہ میں انکاارنہیں کیاجائے گا۔جائیدادمیں قانون وراثت کے مطابق جایزحصہ ملے گا۔مخنث مردکووراثت کامردکاحصہ ہوگا مخنث عورت کے لیے وراثت کاحصہ عورت کاحصہ ہوگا۔اٹھارہ سال سے کم عمرکے مردیاعورت ہونے کاتعین میڈیکل افسرغالب جسمانی ہیئت کی بنیادپرکرے گا۔تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے امتیازنہیں برتاجائے گا۔جومخنث کوگداگری کے لیے ملازمت پررکھے گا اسے چھ ماہ قیدیاپچاس ہزارروپے جرمانہ کی سزایادونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔مخنث افرادکی جنسی کیفیت مردوعورت سے مختلف توہوتی ہے مگروہ ہوتے انسان ہی ہیں۔ان کی اس جنسی ہیئت کے سلسلہ میں ان کااپناکوئی قصورنہیں ہوتا۔ہمارے معاشرے میں مخنث افرادکے ساتھ جورویہ اختیار کیا جاتاہے اورخودمخنث افرادجس طرح زندگی گزارتے ہیں یہ دونوں طرزعمل کسی بھی طرح پسندیدہ قرارنہیں دیے جاسکتے۔ایسے افرادکومعاشرے میں وہی مقام اور وہی سٹیٹس ملناچاہیے جونارمل انسانوں کوحاصل ہے۔ایسے افرادکومعاشرے سے الگ تصورکرکے ان کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے۔جس گھرمیں اس طرح کابچہ پیداہوجائے تووہ پریشان ہوجاتے ہیں کہ وہ معاشرے کاکس طرح سامناکریں گے۔ایسے گھرانے یہ سوچ سوچ کرپریشان رہتے ہیں کہ وہ لوگوں کو کیا بتائیں گے کہ ان کے ہاں کس کی پیدائش ہوئی ہے۔خودمخنث افرادبھی اپنیہ وضع قطع اورچال چلن کچھ ایسااختیارکرلیتے ہیں کہ معززاورسنجیدہ افرادان کے نزدیک جانے کوبھی اچھانہیں سمجھتے۔نارمل انسانوں اورمخنث افراددونوں کواپنے اپنے رویوں میں تبدیلی لاناہوگی۔قومی اسمبلی نے مخنث افرادکے حقوق کابل پاس کرکے بہت اچھی روایت قائم کی ہے۔اس بل کے ذریعے مخنث افرادکوایسے تمام حقوق کامستحق بنادیاگیا ہے جونارمل انسانوں کوحاصل ہیں۔ایسے افرادمردیاعورت کا شناختی کارڈ بنواسکیں گے۔ اپنی جنسی شناخت وہ خوداختیارکریں گے۔ چاہیں تومردکاشناختی کارڈ بنوالیں اورچاہیں توعورت کاشناختی کارڈ بنوالیں۔قومی اسمبلی نے توانہیں خوداپنی شناخت اختیارکرنے کاحق دے دیا ہے۔مخنث افرادکومردیاعورت کاشناختی کارڈ بناکردینے کافیصلہ میڈیکل رپورٹ کے بعدان کی جسمانی ہیئت کے مطابق کیاجائے توبہترہوگا۔جس مخنث میں مردکی علامات زیادہ پائی جائیں تواس کومرداورجس مخنث میں عورت کی علامات زیادہ پائی جائیں تواس کوعورت کاشناختی کارڈ جاری کیاجائے۔ایسے افرادکوڈرائیونگ لائسنس بھی جاری کیاجائے گا۔جس کے بعدیہ گاڑیوں کی ڈرائیونگ بھی کرسکیں گے۔انہیں جائیدادمیں حق داربھی بنایاگیا ہے۔وہ کوئی بھی ملازمت کرسکیں گے، تجارت یاکوئی پیشہ اختیارکرنے حق بھی دیاگیا ہے۔اس طرح مخنث افرادنارمل انسانوں کی طرح باعزت روزگارکماسکیں گے۔اس کے بعدان کوبھیک مانگنے، ناچنے ، گاناگانے، مجرے کرنے اوراس طرح غیرپسندیدہ اورغیراخلاقی کام کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ان سے بھیک منگوانابھی جرم قراردے دیاگیا ہے اوراس کی سزائیں بھی مقررکردی گئی ہیں۔اسلام میں بھی مخنث افرادکوایسے تمام حقوق حاصل ہیں جوحقوق نارمل انسانوں کوحاصل ہیں۔اسلام میں ان کی وراثت کاحصہ ان کی غالب جسمانی ہیئت کے مطابق مقرر ہے۔جس مخنث کی جسمانی ہیئت مردیاعورت میں سے جس سے زیادہ غالب ہوگی اس کے مطابق اسے اسلامی تعلیمات مطابق اسے وراثت میں حصہ دیاجاسکتاہے۔اس بل کی منظوری کے بعدمخنث افرادکوقومی دھارے میں شامل کرلیاگیا ہے۔محمدشریف بودلہ ہمارے دوستوں میں سے ہیں۔ کپڑوں کی سلائی کرکے اپنا اوراپنے بچوں کاروزگارکماتے ہیں۔ مذہبی اورسماجی ورکربھی ہیں۔مختلف تنظیمات میں انہوں نے مثبت کرداراداکیا ہے۔ملک وقوم کی خدمت کرنے کاجب بھی موقع ملتاہے تواس سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ محمدشریف بودلہ مثبت اورتعمیری سوچ کے حامل مسلمان ہیں۔ایک دن ان کی دکان پرایک مخنث بھیک مانگنے آیا تووہ کہنے لگے کہ یہ بھی توانسان ہیں۔ان کو معاشرے سے الگ کیوں رکھاہواہے۔راقم الحروف نے ان کی ان باتوں سے اتفاق کیاجوانہوں نے مخنث افرادکے بارے میں کیں۔ان کاکہناتھا کہ ان کوبھی معاشرے کاباعزت فردتسلیم کیاجائے۔جس طرح خصوصی بچوں کے لیے تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں۔ اس طرح مخنث بچوں کے لیے بھی خصوصی تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں جہاں انہیں نرسری سے میٹرک تک ضرورتعلیم دی جائے۔کالجوں اوریونیورسٹیوں میں بھی ان کی کلاسزلگائی جائیں۔پڑھے لکھے مخنث بھی پائے جاتے ہیں ۔ ایسے مخنث کی شرح بہت کم ہے۔ان کے لیے ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی طرزپرہنرمندی سکھانے کے ادارے بھی قائم کیے جانے چاہییں، تاکہ وہ کوئی نہ کوئی ہنرسیکھ کرباعزت روزگارکماسکیں۔تعلیمی اورتربیتی اداروں میں طلباء ،طالبات کووظائف دیے جاتے ہیں۔مخنث طلباء کونارمل طلباء کی نسبت دو گنا وظائف دیے جائیں۔ جس طرح انہیں ووٹ کاحق دیاگیا ہے اسی طرح قومی وصوبائی اسمبلیوں میں ان کاکوٹہ بھی مقررکیاجاناچاہیے۔جس طرح قومی اسمبلی نے مخنث افرادکے حقوق اوران سے بھیک منگوانے کوجرم قراردینے کابل منظورکرلیا ہے۔کچھ نارمل انسان بھی جان بوجھ مخنث کی شکل اختیارکرکے ان جیسے کام اختیار کرلیتے ہیں۔ ایسے مصنوعی مخنث کے خلاف بھی قانون سازی کی جائے اورایسے مصنوعی مخنث کے لیے بھی سزائیں مقررکی جائیں۔خودمخنث افرادبھی اب اپنی وضع قطع تبدیل کرکے اپنی غالب جسمانی ہیئت کے مطابق اختیارکریں ۔انہیں اپنی وضع قطع ایسی بنانی چاہییے کہ دیکھنے والا یہ امتیازنہ کرسکے کہ سامنے آنے یاجانے والا نارمل انسان ہے یامخنث۔قاری محمدبنیامین چشتی بتارہے تھے کہ سعودی عرب میں مخنث افرادکاایک خاندان ایسابھی ہے جس کے افرادنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرصفائی کاکام کرتاہے۔اخبارات میں خبریں شائع ہوچکی ہیں کہ خدام الحجاج میں اب مخنث افرادکوبھیجاجائے گا۔قومی اسمبلی کے اسی اجلاس میں نویدقمرنے سوک ایجوکیشن اوربنیادی حقوق وشہریوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے آگاہی کوفروغ دینے کے احکامات وضع کرنے کابل سوک ایجوکیشن بل سال دوہزاراٹھارہ پیش کیا۔سینیٹ یہ بل پہلے ہی منظورکرچکاہے۔قومی اسمبلی نے متفقہ طورپراس بل کی منظوری دی۔قانون کے تحت حکومت نیشنل سوک ایجوکیشن کمیشن قائم کیاجائے گا ۔اس کامقصدشہریوں میں اپنے حقوق ،فرائض اورشہری ذمہ داریوں سے متعلق شعوراجاگرکرنا،تشدد،انتہاپسندی اوردہشت گردی کے خلاف متبادل بیانیہ کوفروغ دینا،نوجوانوں میں قوانین بالخصوص ٹریفک قوانین کے احترام کاجذبہ پیداکرنا،حقیقی جمہوریت کے حصول اورعدم مساوات کے ازالے کے لیے ضروری اقدامات کرنااورشہریوں میں نظم وضبط اوررواداری کے بیانیے کوفروغ دیناشامل ہے۔اس بل کی منظوری سے شہریوں میں مختلف قوانین اوران کی شہری ذمہ داریوں کے بارے میں شعوراجاگرکرنے میں مددملے گی۔چینلزپرجس طرح دیگراشتہارات چلائے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہرگھنٹہ میں ایک ایک منٹ کے کلپ سماجی شعور اجاگرکرنے کے لیے دکھائے جائیں تواس کے بہترین نتائج سامنے آئیں گے۔ایسے کلپ میں شہریوں کے حقوق، فرائض اوران کی ذمہ داریاں بتاکرانہیں ادا کرنے کی ترغیب دی جائے۔اس کے علاوہ ٹریفک اوردیگرقوانین سے آگاہی دے کران پرعمل کرنے کی ترغیب بھی دی جائے۔چینلزپرسوک ایجوکیشن بل میں شامل موضوعات پرسلسلہ وارڈرامے بھی دکھائے جائیں ۔ریڈیوپاکستان اورریڈیوایف ایم سے بھی اس طرح کے پروگرامزنشرکیے جائیں۔ اخبارات میں سوک ایجوکیشن پرہفتہ وارایڈیشن شائع کیے جائیں۔اس کے اخراجات صوبائی حکومتیں، سماجی تنظیمیں اورنیوزچینلزواخبارات مل کربرداشت کریں۔ سکولوں میں مذاکروں، مباحثوں اورخاکوں کی مددسے طلباء وطالبات کوسوک ایجوکیشن دی جائے۔تعلیمی اداروں میں سالانہ غیرنصابی سرگرمیوں میں سماجی شعورکوبھی شامل کیا جائے۔قومی اسمبلی نے نویدقمرکے پیش کردہ انسداددہشت گردی (ترمیمی) ایکٹ سال دوہزاراٹھارہ کی متفقہ طورپرمنظوری دی۔بل کامقصدعدالتی کارروائیوں سے منسلک ججوں، پراسیکیوٹرز،گواہوں اوردیگرافرادکاتحفظ کرناہے۔اس بل کی منظوری سے بااثرملزمان کے خوف سے گواہی سے منحرف ہونے کے واقعات کوکم کرنے اورانصاف کی جلداورشفاف فراہمی میں مددملے گی۔قو می اسمبلی نے انسدادبے رحمی حیوانات(ترمیمی) ایکٹ سال دوہزاراٹھارہ کی منظوری دی۔سینیٹ یہ بل پہلے ہی منظورکرچکاہے۔بل کے تحت جانوروں سے بے رحمی کرنے پرجرمانے کی سزابڑھادی گئی ہے۔مختلف صورتوں میں یہ سزاکم سے کم دس ہزاراورزیادہ سے زیادہ تین لاکھ روپے کردی گئی ہے۔گدھا اوراونٹ ریڑھیوں والے اس بل کی زدمیں آسکتے ہیں۔گدھااوراونٹ گاڑیوں کے ذریعے مال برداری کرکے روزگارکمانے والے دیہات کے رہنے والے اورغریب ہوتے ہیں۔سارادن محنت کرکے بمشکل گزراوقات کرتے ہیں اس لیے دس ہزارجرمانہ زیادہ ہے۔یہ پانچ سوروپے ہوناچاہیے۔سیّدنویدقمرنے پاکستان بیت المال (ترمیمی) بل سال دوہزارسترہ پیش کیا۔سینیٹ یہ بل منظورکرچکاہے۔ترمیم کامعذوربچوں کی بحالی کے لیے بحالی خدمات اورمراکزبحال قائم کرنے کے لیے احکامات وضع کرناہے۔قومی اسمبلی نے متفقہ طورپربل کی منظوری دی۔ماری میمن نے تیزاب اورآگ سے جلانے سے متعلق تشددکوخاص طورپرجرم قراردینے اورایسے گھناؤنے جرائم کی شفاف اورفوری سماعت کرنے اوراس سے منسلک اوراس کے ضمنی معاملات کے احکامات وضع کرنے کابل ’’تیزاب اورآگ سے جلانے کے جرم کابل سال دوہزارسترہ ‘‘ پیش کیا۔قائمہ کمیٹی برائے داخلہ یہ بل منظورکرچکی ہے۔سیّدنویدقمرنے بل میں ستائیس ترامیم پیش کیں۔تاہم محرک کے ساتھ میٹنگ کے نتیجے میں یہ بل متفقہ طورپرمنظورکیاگیا۔یہ بل منظوری کے لیے اب سینیٹ میں جائے گا۔ایکٹ کے تحت یہ جرم قابل سماعت، ناقابل مصالحت اورناقابل ضمانت تصورکیاجائے گا۔اگرایسے فعل سے موت واقع ہوگی توملزم کوعمرقیدکی سزادی جاسکے گی۔تفتیش انسپکٹرسے کم رینک کاپولیس افسرنہیں کرے گا۔شیریں مزاری نے انسدادبے رحمی بل پراختلاف کیاکہ جرمانہ کی سزازیادہ ہے۔گدھاگاڑی اورٹانگہ چلانے والے غریب لوگ ہوتے ہیں۔وہ کہاں سے پچیس ہزارروپے جرمانہ دیں گے۔عارف علوی نے ان کی تائیدکی۔تیزاب پھینکنے کے بل پرشیریں مزاری نے سزاکم کرنے کی مخالفت کی۔ایم کیوایم کے ایم این اے عبدالرحیم نے پاکستان شہریت (ترمیمی )بل سال دوہزاراٹھارہ پیش کیا۔وزیرپارلیمانی امورشیخ آفتاب نے مخالفت نہیں کی۔بل قائمہ کمیٹی کوبھیج دیاگیا۔ایم کیوایم کی ایم این اے سلطانہ جعفری نے ٹورآپریٹرزاینڈٹریول ایجنٹس (ریگولیشن )ایکٹ سال دوہزاراٹھارہ پیش کیا۔وزیرمملکت پیرامین الحسنات نے مخالفت نہیں کی لہٰذابل قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امورکوبھیج دیاگیا۔ایم کیوایم کی ایم این اے کشورزہرانے مجموعہ ضابطہ فوجداری سال اٹھارہ سواٹھانوے میں ترمیمی بل سال دوہزاراٹھارہ پیش کیا،بل کامقصدبچوں کوجسمانی، نفسیاتی اورجنسی تشددسے محفوظ کرناہے ۔کشورزہرانے دستورترمیمی بل سال دوہزاراٹھارہ پیش کیا۔زہرہ ودودفاطمی نے کارخانہ جات (ترمیمی)بل سال دوہزاراٹھارہ پیش کیا جسے قائمہ کمیٹی کوبھیج دیاگیا۔
siddiqueprihar@gmail.com