یہ ساٹھ سال پہلے کی بات ہے بجلی نام کی کوئی شے گاؤں میں نہیں تھی اس زمانے میں ، اندھیری راتوں میں کہیں کہیں اوطاقوں میں رکھے ٹمٹماتے مٹی کے دیئے انسانی آبادی کا نشان دیتے تھے ، بستی اور ریلوے لائن کے درمیان تقریبا پون میل کا راستہ تھا جو سارے کا سارا ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں پر مشتمل تھا ان ٹیلوں کا یہ سارا راستہ چڑھائیوں اور اترائیوں پر مشتمل تھا ریلوے سٹیشن پر آنے جانے والے مسافروں کو انہی ریت کے ٹیلوں کے اتار چڑھاؤ پر پیدل سفر کرنا پڑتا تھا ریلوے سٹیشن سے پہلے ایک بڑا سا ریت کا ٹیلہ تھا اس ٹیلے کی چڑھائی کی ٹیل پر جو نہی مسافر پہنچتا یکدم اسے ریلوے سٹیشن کی بلڈنگ نظر آ تی مسافر کو ریلوے سٹیشن تک جانے کے لئے اس ریت کے ٹیلے کے با لکل ملحق واقع ریسٹ ہاؤس کی ایک پرانی ٹوٹی پھوٹی بڑی سی بلڈنگ کے ساتھ سے گزرنا پڑتا تھا ، صدیوں پرانی ریسٹ ہاؤس کی اس بلڈنگ بارے مشہور تھا کہ یہاں جن اور چڑیلیں رہتی ہیں ۔ سردیوں میں تو ان ریت کے ٹیلوں پر سر شام ہی مہیب سناٹا چھا جاتا، سناٹا اتنا شدید ہوتا کہ عام لوگ ان ٹیلوں کی طرف تنہا جانے سے گریز کرتے اگر بہ امر مجبوری کسی کام سے جانا بھی پڑتاتو لوگ اکھٹے ہو کر ان ٹیلوں کا رخ کرتے ، لیکن گر میوں کی چا ند نی راتوں میں تو زندگی کے سبھی خوبصورت رنگ بکھر جاتے ۔بستی کے سبھی نوجوان مردوزن ریت کے ٹیلوں پر نکل آ تے ۔ ریت ٹیلے کے ایک جانب نو جوان لڑکے کبڈی کھیل رہے ہو تے تو دوسری جانب ٹیلے کی اوٹ میں نو جوان لڑکیاں کو کلا چھپاتی کا رنگ جما رہی ہوتیں اور بستی کے بڑے بوڑھے بزرگ ٹیلے کی چوٹی پر حقے کی نے پر دھواں اڑاتے اور کھلی آ نکھوں کے ساتھ فرض نبھاتے نظر آتے ۔ سمجھ نہیں آ تا کہ کیسا عجب دور تھایہ کہ ۔۔ لڑکے لڑکیاں چند گز کے فا صلے پر ہلا گلا کر رہے ہوتے لیکن کیا مجال کہ "پکڑے گئے "اور ” بھاگ گئی "جیسی سر گو شیاں کبھی سننے کو ملی ہوں ۔
"خلو "نے کھانا کھانے کے بعد ایک بڑی کھلی ڈھلی ڈکار لی اور کڑک چا ئے کا زور دار آرڈر دیتے ہو ئے صوفے پر ہی لیٹ گیا ۔۔ میں نے سینٹر ٹیبل سے کھانے کے برتن اٹھا ئے اور چا ئے کا بو لنے اندر چلا گیا ۔۔ واپس آ یا تو دیکھا کہ صوفے پر "خلو” آ نکھیں بند کئے لیٹا تھا آہٹ سن کر وہ بو لا یار تمہیں وہ "برکت” یاد ہے۔۔؟
کون سا برکت ۔۔ میں نے ذہن پر زور ڈالتے ہو ئے پو چھا
یار وہی برکت بابے کا لو والا ۔۔ یار جو چوتھی جماعت میں پڑھا کرتا تھا ۔۔۔ نمبرداروں کے ٹبے والا ۔۔
ہاں ہاں ۔۔ کیا ہوا اسے ؟
کچھ نہیں ۔۔ بابا کالوبھی ملا تھا مجھے ۔۔ایک ہی بیٹا ہے اس کا ۔۔ خا صا پڑھ لکھ گیا ہے ۔۔ باہر ہوتاہے۔۔ بہت فرمانبردار بیٹا ہے یار ۔۔ اللہ نے سن لی ہے بابا کا لو کی
اچھا ۔۔ اللہ بے نیاز ہے یار ۔۔ اس کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ۔۔ قسمت سب کو ایک بار راستہ ضرور دیتی ہے۔۔ میں نے جواب میں سر ہلاتے ہو ئے جواب دیا
بر کت بھی ہما را ہم جماعت تھا اس کی ا ماں فاطی بھٹی پر چنے بھو نتی تھی اور باپ چرواہا تھا۔۔ بابا کا لو صبح گاؤں کے سبھی گھروں سے جانور اکٹھے کرتا اور ریوڑ کو چرانے کے لئے باہر جنگلوں میں لے جاتا ۔۔ جنگل سے سے ان جا نوروں کی واپسی سہہ پہر کو ہوتی ہر روز ریوڑ کی واپسی کے وقت با با کالو نے سر پر لکڑیوں کی ایک گٹھری بھی اٹھائی ہو تی ۔۔ عصر کی نماز کے بعد اماں فا طی کی بھٹی جلنے کا وقت ہو جاتا جب دانے آنا شروع ہو جاتے تب با با کالو جنگل سے لائے ہو ئے بالن سے بھٹی میں آگ جلاتا اور اماں فا طی دانے بھو ننا شروع کر دیتیں ۔۔ اماں فاطی اور بابا کا لو کا ایک ہی بیٹا تھا اور وہ تھا برکت ۔۔ عورتوں میں جب بھی اماں فاطی کے اکلوتے بیٹے کا ذکر ہو تاتو اماں فا طی ٹھٹھا مارتے ہو ئے زور سے ہنستی اور ہا تھ پر ہاتھ مار کر کہتی ۔۔ گیدرنی کے گیارہ کے مقابلہ میں شیرنی کا ایک ہی کا فی ہے ، د یکھنا ایک دن میرا برکتا بہت بڑا افسر بنے گا ، عورتیں اماں فاطی کی یہ بات سن کر مذاق میں زیادہ زور سے ہنستیں ۔ ایک دن تو نمبردار کی بیوی نے آ خر کہہ ہی دیا اماں بڑی بڑی نہ چھوڑا کرو ۔۔ تمہارا حال بھی بس اسی ماں کی طرح ہے جس کے بارے کسی نے کہاتھا ماں مر گئی سردی میں اور دھی کا نام رکھا رضائی ۔۔ اماں فا طی نمبردارنی کا یہ جلاکٹا طعنہ سن کر اس وقت تو کچھ نہیں بو لی مگر اس نے نمبرداروں کے گھر جانا بہت کم کر دیا ۔۔ ایک عرصے تک اماں فاطی کا منہ سو جارہا وہ تو بھلا ہو پٹھانوں میں ہو نے والی شادی کا جہاں اماں فاطی بڑے عرصے کے بعد نمبردارنی کو دکھا ئی دی اور ان دونوں میں بات چیت شروع ہو ئی اور تعلقات بحال ہو ئے ۔ چنے بھو ننے کے علاوہ اماں فا طی گا ؤں کی دا ئی بھی تھی جس گھر میں بچہ ہو تا اماں فاطی کے ہا تھوں میں ہو تا اور زچہ اور بچہ کی پورے چا لیس دن خد مت کرنا بھی اماں فاطی کی ذمہ داری تھی ۔ یہی حال کالو کا تھا اب تو وہ قدرے بوڑھا ہو چکا تھا مگر اب بھی وہ اپنی جوانی کی طرح سارے گاؤں کا خدمت گار تھا جب بھی کسی گھر میں شادی ہوتی دعوت دینے سے نیندرے کی وصولی تک کالو کی ذمہ داری تھی ، شادی کسی بچی کی ہوتی تو کالو کی ذمہ داری بڑھ جاتی بارا تیوں کے ہاتھ دھلانے سے لے کر باراتیوں کے سونے کھانے اور پھر بارات کی روانگی پر جہیز کا سامان سر پر رکھ کر سٹیشن تک پہنچانے تک کے سبھی کام کا لو کرتا اور اگر بیٹے کی شادی ہو تی تو ڈھول باجوں والوں کے آ گے لہک لہک کر جھو مر لگانے والا بھی یہی کا لو ہوتا ۔اگر گاؤں کے کسی گھر میں کو ئی موت ہو تی تو لوگوں تک اس سانحہ کی اطلاع دینے اور مو لوی صاحب کو بلانے سے لے کر میت کے غسل اور کفن کی سلائی سے لے کرقبر کی تیاری تک سبھی کام کا لو کے ذمہ تھے اور عجب بات کہ کا لو نے اپنی ان ذمہ داریوں کی ادا ئیگی میں کبھی سستی اور کو تاہی نہیں کی تھی ، میں نے بتایا نا کہ برکت کالو اور اماں کا ایک ہی اکلوتا بیٹا تھا اور سب سے عجیب بات تھی کہ کالو اور اماں فاطی اپنے اس بیٹے کو پڑھا لکھا کر ایک بڑا ا فسر بنا نا چا ہتے تھے بر کت ہمارا کلاس فیلو تھا اور بڑی بات یہ کہ برکت ہمارے سارے سکول میں سب سے زیادہ ذہین اور لائق طا لب علم تھا ، بر کت اتنا لا ئق اور فائق تھا کہ اس نے پانچویں اور مڈل کے امتحانات میں بورڈ ٹاپ کیا اور آ گے پڑھنے کے لئے وہ شہر چلا گیا ۔۔ کئی سالوں تک اس بارے بستی والوں کا بس یہی پتہ تھا کہ وہ کسی بڑے شہر کے کسی بڑے کالج میں سو لہویں پڑھ رہا ہے ۔۔ پھر ایک دن کیا ہوا کہ کا لو نے ریوڑ چرانا چھوڑ دیا اور اماں فاطی نے دانے بھو ننے بند کر دیئے پتہ چلا کہ کالو اور اماں فاطی بوڑھے ہو گئے ہیں اور ان کے بیٹے نے جو کہیں ملازم ہو گیا ہے انہیں کہا ہے کہ وہ بوڑھے ہو گئے ہیں کام کر نا بند کردیں اور آرام کریں ۔۔ پھر وقت بدلا ۔۔ نمبرداروں کے ٹبہ پر اماں فاطی کے دانے بھو ننے والی بھٹی والے احا طے میں کالو کے مکان کی تعمیر شروع ہو گئی اور چند ماہ کے اندر ہی ایک حویلی نما مکان مکمل ہو گیا جس کے بڑے سے دروازے پر کا لوخان نام کی پلیٹ بھی لگ گئی ۔۔ حالات بدل گئے مگر کالو اور اماں فاطی کا مزاج نہیں بد لا وہ اب بھی سارے گاؤں کا تا بعدار تھا ۔ جہاں ان کی ضرورت ہو تی یہ میاں بیوی حا ضر ہو تے لوگ اس کے تابعدار بیٹے برکت کا ذکر کرتے تو کا لو اپنے ہاتھ با ندھ کر اوپر دیکھتا اور کہتا ناں سا ئیں یہ سب بس اللہ کی شان ہے نہ کسی باپ کا کمال ہے اور نہ کسی بیٹے کا ۔۔ اللہ بس ہم جیسے خود رو پودوں کو زندگی دے کر پروان چڑھا کر بس اپنی شان کا اظہار کرتا ہے ۔۔ اپنی شان کو منواتا ہے ۔۔ دیکھو نا کالو ۔۔ کو ۔۔ کا لوخان بنا دیا ہے نا اللہ کی شان ۔
میں نے یہ سب سو چتے ہو ئے خود کلامی کی ۔۔ ہاں یہ تو ہے ۔۔
ہاں ہاں جی یہی سچے رب کی پہچان ہے مرے ہو ئے کو زندگی اور زندوں کو موت دے کر ہی سچا رب اپنی پہچان دکھاتا ہے ۔۔ مجھے نیلے با با کی سر گو شی سنا ئی دی ۔۔
میں نے چونک کر خلو کی طرف دیکھا۔۔ خلو بے خبر صوفہ کی ٹیک لگا کر سو رہا تھا ۔ باقی اگلی قسط میں
ضرور پڑھیں ۔ بات بتنگڑ قسط 8