کنکریوں والے پتھریلے میدان میں سفید سفید کلبلاتے کیڑ وں کے درمیان ایک دوسرے سے بغلگیر ہو ئے قلابازیاں کھاتے ان جوڑوں کا منظر بڑا عجیب اور وحشتناک تھا اور میں ٹیلے کی چوٹی پر کھڑا حد نظر تک پھیلا یہ منظر دیکھتے ہو ئے سوچ رہا تھا کہ میدان کے اس پار کیا ہو گا دل چا ہا کہ میں بھی اس میدان میں چھلانگ لگا دوں اور دوسروں کی طرح قلا با زیاں لگانا شروع کردوں شا ئد میں یہ کر گزرتا لیکن گذرے احساس کے لمحے نے مجھے یاد کرایا کہ میں تو پہلے ہی ان کلبلاتے ہو ئے کیڑوں کے میدان میں غوطہ زن ہو چکا ہوں اور میرا احساس بھی ایک ہیو لہ کے ساتھ بغلگیر ہو کر چھلانگ لگا چکا ہے تبھی میرے دل میں خیال آ یا کہ بس اب چلنا چا ہئے یہاں سے یہ سوچ آتے ہی میں ٹیلے کی چو ٹی سے اڑا ۔۔ ہاں سچ سے میں نے اڑان بھری ۔۔حیران نہ ہوں قارئین خواب ایسے ہی ہو تے ہیں خوابوں کی دنیا میں خواب دیکھنے والا وہ وہ کرتا ہے جو اس کے نہ تو گمان میں ہو تا ہے اور نہ ہی وہ جا گتے میں کر سکتا ہے ۔۔ تو جناب ہم بھی خوابوں کی دنیا میں ا ڑتے ہو ئے کمرے کے تنگ سے مکان کے زینے میں جا پہنچے ۔ کچی اینٹوں کے اس زینے میں ملجگا سا اند ھیرا تھا اور ہم بڑی احتیاط سے اوپر کی منزل کی طرف جا رہے تھے سیڑھیاں چڑھتے ہو ئے ہم ایک کمرے کے قریب سے گذرے تو دیکھا کہ خالی کمرے کے وسط میں ایک بڑا سا موٹا سا نپ کنڈلی مارے بیٹھا ہے کنڈلی مارے سانپ کو دیکھ کر ڈر تو لگا لیکن میرا یہ خوف اس وقت ہوا ہو گیا جب اس ازدھے نما سانپ کی حقیقت ہمارے سامنے آ ئی یارو یہ سانپ تو کپڑے کا تھا لگتا تھا کسی شو خے نے ہمیں ڈرانے کے لئے مٹیالے رنگ کے کپڑے کا سا نپ بنا کر وہاں بٹھا دیا تھا ۔۔ خیرمیں نے اس سا نپ کو غیر یقینی نظروں سے دیکھتے ہو ئے اگلی منزل کی طرف قدم بڑھائے چند ہی لمحوں میں ہم مکان کے آ خری کمرے میں تھے وہاں ہم نے دیکھا کہ میرے با با اور اماں دو نوں کمرے کے با لکل بیچ میں اکڑوں بیٹھے کچھ با تیں کر رہے ہیں اماں ابا کو وہاں پہلے سے بیٹھے دیکھ کرمجھے کو ئی حیرانی نہیں ہو ئی اور میں بھی خا مو شی کے ساتھ ان کے ساتھ جا بیٹھے اماں ابا کیا با تیں کر رہے تھے یہ تو میں نہیں سن سکا لیکن تبھی میری نظر قریب پڑے ایک کپڑے پر پڑی مجھے لگا جیسے یہ کپڑا سر کتا ہوا میری طرف آ رہا ہے اسے اپنی طرف سرکتے ہو ئے دیکھتے میں نے بڑے گھبرائے ، ڈرتے ڈرتے اسے دیکھتے ہو ئے اس بارے اماں ابا کو بتانے کے لئے اپنا چہرہ اس سر کتے ہو ئے کپڑے سے ہٹایا ہی تھاکہ اچا نک رینگتے ہو ئے اس ناگ نما کپڑے نے اپنا منہ کھو لا اور میری دا ئیں ٹانگ کی پنڈلی کو اپنے جبڑے میں جکڑ لیا کپڑے کے ناگ کی جکڑن شدید تو تھی تکلیف کا احساس بھی ہوا لیکن زیادہ نہیں ۔جو نہی ناگ نے میری پنڈلی اپنے جبڑے میں لی اسی وقت ابا اور اماں دو نوں نے مل کر ا س ہیبت ناک کپڑے کی دم سے پکڑ کر اسے پیچھے کی طرف کھینچنا شروع کر دیا اماں اور ابا اس کپڑے کے ناگ کی دم کو خا صی دیر تک کھینچتے رہے یہاں تک کہ میریپنڈلی کو اس ناگ نما کپڑے کے جبڑے سے چھڑانے میں کا میاب ہو گئے ۔ اس مصیبت سے چھٹکارا دلاتے ہی ابا اور اماں دو نوں پتہ نہیں کہاں چلے گئے اور ناگ نمارینگتاکپڑا بھی کہیں غا ئب ہو گیا ۔
خواب کے اگلے مرحلے میں دیکھا کہ میں ا یک قبر ستان میں ہوں اور وہاں ایک قبر جو بہت سے پیلو کے درختوں سے ڈھکی ہے پر ایک ملنگ نما سا دھو دھمال ڈالتے ہو ئے قبر کے چا روں طرف چکر لگا رہا ہے الجھے با لوں اور گندے بد بودار کپڑوں میں ملبوس دھمال ڈالتے ہو ئے دھیمے لہجے میں کسی نا ما نوس زبان میں کچھ گا بھی رہا ہے وہ کیا گا رہا تھا یہ تو میری سمجھ میں نہیں آ یا لیکن مجھے لگا کہ وہ قبر کا چکر لگاتے اجنبی زبان میں جو بھی نعرے بازی رہا ہے وہ غلط ہے درست نہیں۔۔ مجھے کیا کرنا چا ہئے ؟ میں سو چنے لگا۔۔ ایک لمحے بعد ہی مجھے لگا جیسے اس سا دھو نے میری سوچ پڑھ لی ہو جبھی تو اسی لمحہ سا دھو نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور اپنے دو نوں بازو کھول کر میری طرف بڑھنا شروع کر دیا سا دھو کا چہرہ بڑا وحشت ناک تھا اس کا لے کلوٹے ملنگ ٹائپ سا دھو نے اپنے گلے میں انسانی کھو پڑیاں ، بڑی بڑی پیتل کی گھنٹیاں اور لو ہے کے ٹل پہنے ہو ئے تھے اس کی کی بڑی بڑی سرخ آ نکھیں اتنی لہو رنگ تھیں جیسے آگ کی بھٹی ان آ نکھوں میں دہک رہی ہو ، اس کی بے تحا شا بڑھی ہو ئی گھنی داڑھی کے گھنے لمبے اور الجھے سیاہ سفید بال اس کے منہ سے بہنے والی تھوک کی رالوں سے بھرے پڑے تھے ،مست ملنگ سادھو اپنے دو نوں با نہیں کھول کر آ ہستہ آ ہستہ میری طرف بڑھ رہا تھا جیسے جیسے وہ میرے قریب آ رہا تھا اس کے نعروں کی بڑ بڑاہٹ میں اضافہ ہو رہا تھا اس کی حالت دیکھ کر مجھے ایسے لگا جیسے وہ بہت غصہ میں ہے اور مجھے پکڑ کر اپنے دو نوں بازوؤں میں بھینچ کر مارنا چا ہتا ہے دل چا ہا کہ بھاگ جا ؤں لیکن اچا نک نہ معلوم میرے اندر کہاں سے ایسی قوت پیدا ہوتی ہے کہ میں بھا گنے کی بجائے بے ساختہ اپنی طرف آ تے ہو ئے سا دھو کی طرف بڑھتا ہوں اور نعرے لگاتے اس سادھو کو پکڑ کر نیچے گرا لیتا ہوں مجھے آج بھی خواب کا وہ منظرکسی فلم کی سین کی طرح یاد ہے کہ میں اس کالے کلوٹے بھینس جیسے سا دھو کی چھاتی پر بیٹھے کلمہ شہادت پڑھتے ہو ئے اس کی گردن دبا رہا ہوں ، سا دھو کی گردن پر میری گرفت اتنی شدید ہے کہ اس کی آ نکھیں با ہر کو نکلتی محسوس ہو تی ہیں تھوڑی ہی دیر میں سا دھو مر جاتا ہے اور میں کلمہ شہادت پڑھتے ہو ئے اس کی چھاتی سے اتر تے زیر لب کہتا ہوں ۔۔ اچھا ہوا مر گیا ایک شیطان ۔
سادھو نما شیطان سے میری اس کشتی کے بعدخواب کا تیسرا اور آ خری لمحہ شروع ہو تا ہے کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سنسان راستے کی کچی پکڈ نڈی پر میں یک وتنہا چلا جا رہا ہوں گرم مو سم میں یہ ایک طویل سفر ہے اتنا طویل کہ مجھے لگتا جیسے دھوپ کی شدید گرمی اور جلن کے با عث جسم پر بہنے والے پسینہ سے میرا لباس پا نی پانی ہو گیا ہو ۔ میں شدید تھکا ہوا ہوں ۔۔ مگر سفر جاری ہے ۔۔ غضب کی پیاس لگی ہے ۔ پیاس اور گرمی کی شدت اور طویل سفر کی صعوبت سے میرے ہو نٹوں پر خشک پٹریاں جم گئی ہیں سفر کی طوالت اور پیاس کی شدت نے مجھے نیم جاں کر دیا ہے ۔۔چل رہا ہوں مگر لڑ کھڑاتے ہو ئے ۔۔لگتا ہے جیسے ابھی بے ہوش ہو جاؤں گا ۔۔لیکن چند ہی لمحوں کی مزیدمسا فت کے بعد مجھے ایک بڑے سے دروازے والا ایک مکان دکھا ئی دیتا ہے میں سو چتا ہوں یہ ہے میری منزل اور یہ ہے میرا مکان ۔۔۔ میں یہی سو چتے ہو ئے بڑے دروازے سے گذر کر ایک کمرے میں داخل ہو تا ہوں ، کمرے میں کو ئی نہیں ہے خالی کمرے کے چاروں طرف چار دروازے ہیں اور ان چاروں دروازوں پر سفید شیفوں کے پردے لٹکے ہو ئے ہیں جو ہوا سے لہرا رہے ہیں ۔ دالان نمااس بڑے سے کمرے کے درمیان میں مو ٹے موٹے رنگین پا یوں والا ایک بڑا سا پلنگ رکھا ہے ۔ میں اس پلنگ پر ٹانگیں نیچے لٹکا کے بیٹھ جا تا ہوں تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک نو جوان لڑکی کمرے میں داخل ہو تی ہے اس کے ہاتھ میں دودھ سے بھرا پیتل کا بڑا سا گلاس ہو تا ہے ۔۔ لڑکی دودھ کا گلاس مجھے دینے کے لئے اپنا چہرہ اوپر اٹھا تی ہے تومیں دیکھتا ہوں کہ لڑکی کے ہو نٹوں پر بھی سیاہی ما ئل خشک پٹریاں جمی ہیں ایسے لگتا ہے جیسے وہ بھی ایک طویل سفر کر کے یہاں پہنچی ہے ۔۔۔میں دودھ کاگلاس لیتے ہو ئے اس کو بازوسے پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہو ئے پو چھتا ہوں اب واپس تو نہیں جا ؤ گی نہ ؟ باقی اگلی قسط میں ۔۔
ضرور پڑھیں ۔ بات بتنگڑ قسط 10
ضروری وضاحت ۔۔ قارئین کرام ! بات بتنگڑ ایک کہانی ہے ، بیان کئے گئے واقعات کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں ،اس کے تمام کردار ، نام اور مقام فرضی ہیں ، مما ثلت اتفاقی ہو گی ۔ ادارہ