اچا نک ایک زور دار دھماکے نے مجھے گڑبڑا دیا ، دروازہ کسی نے بڑے زور سے بند کیا تھا اور اس بے وقت اور بے ہنگے دروازے کے شور نے میری خوابوں کا محل چکنا چور کر دیا ۔ میں نے چو نک کے ادھر ادھرنظریں گھما ئیں۔۔ تو مجھے یاد آیاکہ خلو تو کب کا جا چکا ہے اور میں کمپیو ٹر ٹیبل صاف کرتے کرتے نہ جانے کب سے کمرے میں اکیلا سو چوں میں گم خوابوں کی دنیا میں کھو یا ہوا تھا ۔ عجیب بات ہے کہ اتنا وقت گذرنے کے بعد بھی کسی نے کمرے میں آ کر مجھے دیکھنے کا تکلف نہیں کیا کہ مر گیا ہوں یا زندہ ہوں ۔ گھر والوں کی اس سرد مہری پر میں نے تلخ لہجے میں سو چا ۔۔
کمرے کے دونوں دروازے بند ہیں اسی لئے شا ئد گھر والے ابھی تک یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ خلو میرے ساتھ کمرے میں مو جود ہے تبھی تو نہ کو ئی کمرے میں آ یا اور نہ ہی کسی نے مجھے ڈسٹرب کیا ۔ میری سوچ نے مجھے تسلی دی
ہاں یہی بات ہے ، سب گھر والے دوسری منزل پر دھوپ سینک رہے ہیں ۔ تمہیں چا ئے دے کر سبھی اوپر چلے گئے اور انہیں علم ہی نہیں کہ تمہارا دوست خلو کب کا جا چکا ہے ۔ اور تم اکیلے یہاں مکھیاں مار رہے ہو ۔۔مجھے ہنستے ہو ئے نیلے بابا کی بھنبھنا ہت سنا ئی دی
تم کب آ ئے ؟ میں نے اس کے بے وقت مذاق کو اگنور کرتے ہو ئے سوال سوچا
میں گیا کہاں تھا ۔۔ میں تو کب سے تمہارے پاس ہی ہوں ۔۔ سر گو شی ابھری
پھر تم خا موش کیوں تھے ؟ میری سوچ میں غصہ سی جھنجھلاہٹ نمایاں تھی
تم غصہ کیوں دکھا رہا ہو ؟ اس نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے الٹا مجھ سے سوال کر دیا
میں خا موش رہا ۔۔
دیکھو میں تمہارا کو ئی معمول نہیں کہ تم مجھ پر غصہ کرو اور میری جواب طلبی کرو ۔۔۔ میں اپنی مرضی کا مالک ہوں جب جی چا ہے گا تب آ ؤں گا جب جی نہیں چا ہے گا نہیں آ ؤں گا ۔۔
نیلے با با کی سر گو شی نے میری خا مو شی کا لحاظ نہ کرتے ہو ئے میرے خد شات کی تصدیق کر دی ۔۔
میں کب ناراض ہو رہا ہوں یار ۔۔تم تو خوامخواہ اتنے سیریس ہو رہے ہو ۔۔ میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ لگتا میں تمہارا عادی ہو گیا ہوں۔۔ ہر وقت دل چا ہتا کہ تم سے سر گو شیاں کرتا رہوں ۔۔ اسی لئے جب تم غا ئب ہوتے ہو ۔۔ میں الجھ جاتا ہوں ، تمہاری بہت کمی محسوس ہو تی ہے ۔۔ لگتا تم میری کمزوری بن گئے ہو ۔۔ میری سوچ نے جواب دیا
اچھا ۔۔ نیلے بابا نے شوخی سے بھر پور لچکدار مترنم الفاظ سے مست سر گو شی میری طرف اچھالی
ہاں جا نو ۔۔ سچ سے ۔۔ میں نے بھی اسی کے انداز میں اسے ریسپانس دیا
ٹھیک کہتے ہو تم انسان بھی دو سری مخلوق کی طرح بہت جلد دوسروں کا عادی ہو جاتا ہے۔ جیسے جا نور اپنے گھروں اور مالکوں کے عادی ہو جاتے ہیں اسی طرح انسان بھی اپنی من پسند عادات کا غلام بن جاتا ہے اور یہی کمزوری انسان کو بے بس ، لا چار اور محکوم بنا دیتی ہے ۔۔ نیلے با با نے فلسفہ جھا ڑا
Humm میں نے سو چا
ہاں دیکھ لو ۔۔ جہاں عادات ، خصائل اور مشا غل انسان کی کمزوری بنے وہاں انسان کو سر نگوں ہو نا پڑا ۔۔
وہ کیسے ؟ میں نیلے بابا کی سر گوشی کا مطلب سمجھ رہاتھا لیکن میں نے انجان بنتے ہو ئے اس سے وضاحت چا ہی
ہا ہا ہا ۔۔ تم میری بات سمجھ تو رہے ہو مگر شا ئد تم چسکہ لینا چا ہتے ہو ۔۔ تو سنو ۔۔تمہاری دنیا کے سارے چسکے تین ز میں چھپے ہیں
ز میں ۔۔ کیامطلب ؟ اب میں نیلے بابا کی اس بے سروپا گفتگو سے اکتانے لگا تھا
مطلب یہ کہ زن زر اور زمین ۔۔ تمہاری دنیا میں تمام انسا نوں کی عادات ، خصائل اور مشا غل انہی تینوں ز کے گرد گھو متے ہیں ۔دنیا کے اکثر گناہ اور تقریبا سبھی خرابیاں لالچ ، حسد ، بغض ، قتل ، غارت گری ، منا فقت ، ظلم ، استحصال اور ہوس سمیت تقریبا سبھی گناہ اور کمزوریاں انہی تینوں کے گرد گھو متیں ۔۔ مانا کہ یہ سب انسانی ضرورتیں ہیں لیکن زن زر زمین کے حصول کے فتنے میں جو بھی حد سے بڑھا سمجھو وہ تو گیا کام سے ۔۔ نیلے با با نے رک رک کر اپنی سر گو شی مکمل کی
ہاں یہ تو ہے مگر یہ سب کچھ تم مجھے کیوں سنا رہے ۔میں نے جھلاتے ہو ئے سوچا۔ میں تو تم سے ۔۔
ہاں ہاں تم مجھ سے کچھ پو چھنا چا ہتے ہو نا میرے بارے میں ۔۔ نیلے بابا کی سر گو شی نے میری سوچ میں ابھرے سوال کو اچک لیا
ہاں میں تمہارے بارے کچھ جا ننا چا ہتا ہوں ۔۔ میں نے سو چا
ٹھیک میں تمہیں بتا دوں گا ۔۔ مگر اب جو میں بات کر رہا ہوں اس بارے مجھے اپنا نقطہ نظر بتا ؤ ۔۔ نیلا با با نے سر گو شی کی
کون سی بات ؟ میں نے سوچا
عجیب آ دمی ہو ۔۔ میں کب سے ڈسکس کر رہا ہوں زن زر زمین کے فلسفہ پر ۔۔ تم نے سنا ہی نہیں کیا ؟ نیلے بابا بھنا ئے ہو ئے انداز میں پھنکارا
نیلے با با کو چڑتے محسوس کرتے ہو ئے میں بے سا ختہ مسکرا دیا ۔۔۔
میرے مسکرانے سے شا ئد نیلا بابا کچھ زیادہ ہی تا ؤ کھا گیا ۔۔۔ اور اس کی طرف سے خامو شی چھا گئی
جب خا مو شی کا دورا نیہ کچھ زیادہ ہوا تو میں نے اسے آ واز دی
Helooo
جی ۔۔ سر گو شی سنا ئی دی
ناراض ہو گئے ہو ؟ ۔۔۔
نہیں ۔۔
تو ۔۔ بو لتے کیوں نہیں ؟ میں نے شکوہ کیا
کیا بو لوں ۔۔ تم مجھے سنجیدہ نہیں لے رہے ۔۔ بو لتا ہوں تو سنتے نہیں ۔۔ جواب شکوہ سننے کو ملا
ایسا نہیں ہے ۔۔ میں نے نیلے بابا کو مطمئن کر نے کے لئے اپنی بات جاری رکھتے ہو ئے کہا ۔۔
یار تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔۔ زن زر زمین کی یہ کہاوت ہمارے ہاں بہت مستعمل ہے ، سنتے آ ئے ہیں کہ یہی تین چیزیں دنیا میں سبھی خرابی کا با عث ہیں ۔۔ لیکن دوست ان تین چیزوں میں زمین اور زر تو غیرجا ندار ہیں اور انسان کی ملکیت ہو تی ہیں لیکن زن یعنی عورت تو ملکیت نہیں ہے وہ تو جان دار ہے ، خدا نے تو عورت کو مرد کی طرح آزاد پیدا کیا اور اسے عقل و خرد سے نوازا اور سب سے بڑھ کر اسے اپنی پسند اور نا پسند کا اختیار بخشا ۔ اسلام میں تو عورت کو وراثت کا حق بھی دیا گیا ہے ۔۔ ایسے مین زن کو زر اور زمین کے ساتھ ملا کر بیان کر نا بڑی اچھنبے کی بات ہے ۔ اسے راضی کرنے کے لئے میں نے قدرے تفصیل سے اپنی سوچ بیان کی
تمہاری با توں میں بڑا وزن ہے مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ زر اور زمین کے بعد جو سب سے زیادہ مو جب فساد بنی اس کا ئنات میں ۔۔ وہ یہی عورت ہے ۔۔جس کا تم دفاع کر رہے ہو ۔۔ حضرت آ دم اور اماں حوا کی تخلیق سے لے کر آج تک کی اربوں سال دنیا کی تباہ کاریوں میں بہر حال زر اور زمین کے ساتھ زن کا بھی ایک بڑا کردار رہا ہے تم اس سے انکار نہیں کر سکتے ۔۔ نیلے بابے نے سر گو شی کی
صحیح ۔۔ میں نے ہار ماننے کے انداز میں سو چا
اچھا ۔۔ تم کیا پو چھنا چا ہتے ہو میرے بارے میں ۔۔۔ نیلا با با میرے مقصد کی طرف لوٹا
یہی کہ تمہاری عمر کتنی ہے ۔۔۔ میں نے جلدی سو چا
بس ۔۔ یار یہ کیا سوال ہوا ۔۔ بھئی میری عمر اتنی ہی ہے جتنی تمہاری ۔۔ بظا ہر میں نے بھی تبھی جنم لیا جب تم پیدا ہو ئے ۔۔ اس نے سر گو شی کی
بظاہر ۔۔ یہ بظا ہر کیا ہوا ؟ میں نے تعجب سے سوال کیا
ہاں بظا ہر ۔۔ اس دنیا میں انسان کی شکل میں پیدا ہونے والی ہر روح بظا ہر ہی جنم لیتی ہے ۔۔ تم سب اس کے پیدا ہو نے والے ظا ہری جنم دن کو اس کی زندگی کا پہلا دن قرار دیتے ہو حالانکہ ایسا نہیں ۔۔۔ وہ تو ابتدائے کا ئنات کے وقت تخلیق کی گئی وہ روح ہو تی ہے ۔۔ جسے امتحان کے لئے دنیا میں بھیجا جاتا ہے ۔۔ یہ روح ایک مقررہ وقت پرایک مخصو ص ٹائم ٹیبل کے سا تھ کچھ لمحوں کے لئے ایک فا نی جسم لئے تمہاری دنیا میں آ نکھ کھو لتی ہے ۔۔ جسے تم اس کی پیدا ئش سمجھتے ہو حا لا نکہ حقیقت میں ا یسا نہیں ہو تا ۔
کچھ لمحے ؟ میں نے استفسار کیا
ہاں چند لمحے ۔۔ جا نتے ہو نا کہ حساب کا دن پچاس ہزاربرس کا ہو گا ۔ اب پچاس ہزاربر س کے ایک دن میں سے بندے کو اگر دنیامیں جینے کے لئے زیادہ سے زیادہ ستر ، سو برس ملے تو وہ پچاس ہزاربرس دن کے چند لمحے ہی ہو ئے ناں ۔۔ اور انسان ہے کہ اس برف کی طرح پگھلتی لمحاتی زندگی کو نہ جانے کیا سمجھ بیٹھا ہے ؟ نیلے باباکی اس سر گو شی نے میرے چودہ طبق روشن کر دیئے ۔
دل میں اتر تی نیلے بابے کی ان سر گو شیوں میں پتا نہیں کیا اثر تھا کہ روح اور امتحان کا ذکر سن کر میرے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو نے لگیں، گھبراہٹ اور ندامت کے سے پیشانی اور ہاتھوں کی ہتھیلیاں گیلی ہو گئیں۔ میری حالت ایسے جواری کی ما نند تھی جسے محسوس ہو گیا ہو کہ وہ زند گی کی اس با زی میں اپنا سب کچھ ہار بیٹھا ہے ۔ ندامت ، دکھ ،افسوس اور پچھتا وے کے کھوٹے سکوں کے سوا کچھ بھی نہیں اس کی جھو لی میں ۔ اور پھر اپنے تہی دامن ہو نے کا یہ احساس ہو تے ہی میری آ نکھیں چھلک پڑیں ۔۔۔
باقی اگلی قسط میں ۔۔
ضروری وضاحت ۔۔
قارئین کرام ! بات بتنگڑ ایک کہانی ہے ، بیان کئے گئے واقعات کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں ،اس کے تمام کردار ، نام اور مقام فرضی ہیں ، مما ثلت اتفاقی ہو گی ۔ ادارہ