لو جی کر لیں بات کراچی کے ایک سابق 84 سالہ جج کے نام 2224 رجسٹرڈ گاڑیاں نکل آ ئیں ، آ نریبل جج کے وکیل کے بقول ان کے کلا ئینٹ کو ایک ایسی گا ڑی کا چالان نو ٹس ملا جو ان کی نہیں تھی ، جب ان کی ہدا یت پر وکیل مو صو ف نے رجسٹریشن آ فس جا کر معلو مات کیں تو پتہ چلا کہ جج صا ھب کے نام ایک نہیں ، دس نہیں بلکہ پو ری 2224 گا ڑیاں رجسٹرڈ ہیں جب کہ اصل صورت حال یہ ہے کہ جج صاحب کے پاس صرف ایک گاڑی ہے جو ان کے زیر استعمال ہے با قی 2223 گا ڑوں کی ان کے نام سے جعلسازی کے ساتھ رجسٹریشن کی گئی ہے ۔ ہمارے ہاں ریا ستی سطح پر ہو نے والی جعلسازی کی تا ریخ ہماری قو می تا ریخ سے جڑی ہے ۔ جعلی بنک ااکا وء نٹس ، جعلی مل ما لکان ، جعلی ڈرائیونگ لا ئیسنس ، زمینوں کی جعلی الا ٹمنٹ اور جعلی ایڈ جسٹمنٹ حتی کہ جعلی نکاح ، جعلی طلاق ، جعلی برتھ سر ٹیفکیٹ ، جعلی ادویات ، جعلی ڈیٹھ سر ٹیفکیٹ ، جعلی تعلیمی سندات ، جعلی ڈا کٹر ، جعلی شنا ختی کارڈ اور جعلی پا سپورٹ یہ کہا نیاں اور یہ قصے آ ج ہی تو ہمیں سننے کو نہیں مل رہے
میں اپنی زند گی کے چھ عشرے گذار چکا ہوں عمر کے چالیس پینتا لیس سال لکھنے لکھانے اور سننے سنا نے میں گذر گئے اس گذری پون صدی میں جعلسازی کی یہ دا ستا نیں کئی بار پڑھنے ، سننے کو ملیں ، کئی بار خود بھی بزعم خود بڑے بڑے کالم انہی مو ضوعات پر تحریر بھی کئے ایم سی ہا ئی سکول بھراتری ٹرسٹوقف ارا ضی ، ان نو ٹیفا ئیڈ چک 123 بی ٹی ڈی اے اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتال کے گم شدہ رقبہ بارے میرے کالم آ ج بھی زندہ ہیں ( یہاں یہ وضا حت کرتا چلوں میرے یہ کالم 2008 سے پہلے تحریر کئے گئے تھے ) پرنٹ میڈ یا کے علاوہ الیکٹرا نک میڈ یا پر بھی بہت سے دا نشوروں کو آ گہی کے عذاب کے سببب شور مچا تے سنا مگر اقتدارو اختیار کے ایوانوں میں کبھی آ ہٹ پیدا نہ ہو ئی بس قبر ستان جیسا سنا ٹا ہمارا قو می مقدر رہا ۔ کبھی کو ئی جعلساز اور جعلسازی کا ذمہ دار با عث عبرت نہ بنا جو پکڑا گیا پکڑنے والے اور انصاف کرنے والے اداروں نے اسے دے دلا کر با عزت چھوڑ دیا ۔ ایسی بے شمار مثالیں آپ کو دیکھنے ، سننے اور پڑھنے کو ملیں گی ہمارے لیہ کی مثال لے لیں شہر کی تاریخ لینڈ ما فیا کے کار نا موں سے بھری ہے جعلی ایڈ جسمنٹ اور الا ٹمنٹ ۔، تعلیمی اداروں اور قبر ستانوں تک کی وقف اراضیوں کے قصے زبان زد عام ہیں ، سرکار کی زمینوں کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کر نے والے انتہائی وی وی آ ئی پی ہیں سر کاری دفاتر میں ایسی انکوائریوں کی سینکڑوں فا ئلیں کو دیمک لگ رہی ہیں لیکن کبھی کسی ذمہ دار آ فیسر کو یہ تو فیق نہیں ہو تی کہ ان فا ئلوں کی گرد جھاڑ کر اپنی ذمہ داری کو پوری کرے ۔
ایک اور المیہ ہے کہ ان ما فیاؤں کی شکایات کرنے والے افراد کو "نیگیٹیو ما ئنڈ” قرار دے کر ان کے نام کے ارد گرد نہ دکھنے والا سرخ دائرہ لگا دیا جا تا جس کا مطلب کہ یہ ذہنی عارضہ میں مبتلا شکایت باز شخص ہے اس کی کسی بات پر سنجیدہ تو جہ صرف وقت کا ضیاع ہے ایک اور المیہ ہمارے ہاں مٹی پاؤ کا رواج ہے ، ایک بار بھراتری ٹرسٹ کی وقف اراضی اور ان نو ٹیفا ئیڈچک 123بی بارے ایک مجاز افسر سے بات ہو ئی تو فرمانے لگے چھو ڑو یار بہت پرا نا قضیہ ہے ۔ جن دنوں میں مقا می ایف ایم ریڈ یو پر پروگرام فورم 89 کا میزبان تھا ایک قو می سطح کے سیاسی اور مذ ہبی لیڈر پرو گرام میں میرے مہمان بنے ۔ میں نے دوران انٹرویو ان سے سوال کیا کہ سقوط ڈھاکہ میں پا کستان کی سالمیت کے لئے سب سے زیادہ آ پ کی جماعت کے لو گوں نے قر با نیاں دیں ، پا کستان دو لخت ہو گیا اتنے سال گذر گئے اس قو می سا نحہ کے کسی ذمہ دار کو سزا نہیں ملی کیا سقوط ڈھاکہ کا کیس ری اوپن نہیں ہو نا چا ہیئے ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں سزا ئیں نہیں ملنی چا ہئیں ؟ جواب ملا چھو ڑیں بہت وقت گذر گیا ہمیں آ گے بڑھنا چا ہیئے ۔تو اس مٹی پا ؤ سوچ نے بھی ہمیں بہت زخم دیئے اور دکھی کیا ۔
مظفر گڑھ میں ہمارے ایک دوست مجسٹریٹ ہوا کرتے تھے ایک صبح ان سے ملنے کے لئے ان کے آ فس جا نے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ وہاں سادہ سے ایک بزرگ شخص پہلے سے مو جود تھے ان کے ہا تھ میں ایک مو ٹی سی فا ئل کھلی تھی اور وہ انتہائی ششتہ انگریزی میں اپنا مو قف بیان کر رہے تھے بیان میں اتنی روانی تھی کہ مجسٹریٹ صاھب بھی بڑے ادب سے ان کی گفتگو سننے پر مجبور تھے ، بات ختم ہو ئی تو صاحب بہادر نے انہیں جواب دیا کہ آپ فکر نہ کریں انشا ء للہ صاف انکوائری ہو گی اور انصاف ہو گا بزرگ شہری سن کر کھڑے ہو گئے اور فائل سنبھا لتے ہو ئے بو لے صاحب اس معا ملہ میں میرا تو کو ئی نقصان نہیں ہوا البتہ ملک اور شہر کا بڑا نقصان ہے خا صہ عر صہ ہو گیا انصاف کے دروا زے کھٹکتا تے ہو ئے اب تو تھک گیا ہوں یہ کہہ کر بزرگ جا نے کے لئے مڑے تو میں نے دیکھا کہ ان کے پا ؤں میں ہوا ئی چپل تھی ۔ ان کے جا نے کے بعد پتہ چلا کہ بزرگ ” علیگ ” سے پڑھے ہو ئے تھے اور شہر میں جعلی الا ٹمنٹ اور غیر قانو نی قبضوں بارے دی جانے والی کئی درخواستوں کے مد عی تھے ۔ میرے استفسار پر مجسٹریٹ صاحب فرمانے لگے کہ کیا کریں با با جی عادی ہیں در خواستیں دینے کے ۔
اسی طرح بر سوں پہلے ہمارے شہر کے بابا حاجی الہی بخش ہوا کرتے تھے وہ لیہ شہر میں محکمہ اوقاف کی شہری جا ئیداد پر نا جا ئز قبضے کی ایک بڑی سی فا ئل لئے ہر دفتر میں نظر آ یا کرتے تھے ، افسران جہاں کھلی کچہری ہو تی حاجی صاحب وہاں پہنچ جا تے اور شہر میں اوقاف کی زمینوں پر نا جا ئز قبضوں کی داستا ں بیان کرتے ، ایک ایسی ہی کحلی کچہری میں کمشنر صاھب نے ان کے درخواست وصول کر کے وعدہ کیا کہ جلد ان کی درخواست پر انکوائری ہو گی جس کی انہیں بھی با ضابطہ اطلاع دی جا ئے گی ہفتوں گذر نے کے بعد حا جی صاحب نے کمشنر آ فس سے را بطہ کیا مگر جواب ندارد ، ایک دو بار رابطہ کرنے پر جب کو ئی جواب نہیں ملا تو یہ سوچ کر کہ شا ئد کمشنر آفس کے پاس انہیں اطلاع دینے کے لئے ڈاک خرچ کا بجٹ نہیں ایک درخواست اس استدعا کے ساتھ کہ مجھے میری شکا یت پر ہو نے والی پیشرفت سے آ گاہ کیا جائے ڈاک خرچ کے لئے دس روپے لف درخواست ہذا ہیں کمشنر صاحب کے نام رجسٹرڈ ڈاک بھجوادی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اوقاف کی زمین پر نا جا ئز قابضین بارے پیش رفت کا تو پتہ نہیں چل سکا لیکن ڈاک خرچ کے دس رو پے سر کار کو بھیجنے پر حاجی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا ۔
گذ شتہ دنوں منشا بم گرفتار ہوا سنا ہے اس نے سرکار اور غریبوں کی زمینوں پر قبضے کئے ہو ئے ہیں اور وہ اپنے علاقہ میں دہشت کی علامت تھا کہنا یہ تھا کہ یہ تو لا ہور کا ایک منشا بم ہے جو بابا رحمتے کی نظر میں آ گیا اگر تھو ڑا سا ہوم ورک کر لیا جا ئے تو ملک کے ہر شہر گا ؤں حتی کہ گلی محلہ تک ایسے ہزاروں منشا بم مل جا ئیں گے جنہوں نے سرکار کے کرپٹ ما فیا کے ساتھ مل کر اودھم مچا یا ہوا ہے ۔ شہر شہر گلی گلی محلے محلے پحیلے ا ن منشا بموں کے خلاف درخواستیں اور انکوا ئروں پر مشتمل دیمک لگی بڑی بڑی مو ٹی فا ئلیں سر کار ی دفاتر کی الماریوں میں بھر بھری مٹی بنی جا ر ہی ہیں
وزیر اعظم عمران خان سے سو اختلاف ہو سکتے ہیں مگر اس کے اس بیانیہ میں بڑا وزن ہے کہ اس ملک کو لو ٹنے والوں نیاس ملک اور عوام کے خزانے کو بڑی بے دردی سے لو ٹا ہے اور ماں دھر تی کو لو ٹنے والے سبھی چور اور ڈاکو ہیں اور اس کی جنگ انہی لٹیروں کے خلاف ہے وزیر اعظم کے ارد گرد نظر آ نے والے بیشتر سدا بہار اقتدار پرست چہروں پر شدید تحفظات کے باوجود عمران خان کے اس بیا نیہ میں بڑا وزن ہے اب چور اور ڈاکو کون ہیں انہیں تو مو جودہ حکومت نے نہ صرف سا منے لا نا ہے بلکہ ثا بت کر نا ہے ۔لیکن ایک شو رو غو غا جو کرپشن کے باد شا ہوں کے خلاف بر پا ہے
سو چنا یہ ہے کہ ان کر پٹ ما فیا کی تشکیل اور تکمیل میں ریاست کی وہ کو نسی قو تیں ہیں جو شریک سفر اور شریک عمل رہیں ، نو کر شا ہی اور بیو رو کریسی کے وہ مہا کل پر زے جو دغا کو دعا بنا نے میں ما ہر ہو تے اور جن کی آ شیر باد سے یہ جعلسازی ہو تی ہے اور منشا بم تخلیق ہو تے ہیں اگر احتساب کے ذمہ داران ادارے ان کی تلاش کو بھی اپنے مقا صد میں شا مل کر لیں تو احتساب کا دھند لا آ ئینہ بہت صاف اور شفاف ہو جا ئے گا