آخر کار وہ لمحہ بھی قوم نے دیکھ لیاجس کابرسوں سے انتظار تھاکہ ان کی منتخب کردہ اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کریں ۔یوں 31مئی 2018ء کو رات بارہ بجے نواز لیگی حکومت اس وقت تحلیل ہوئی جب اس کی پانچ سالہ مدت پوری ہوئی ۔یہ تو درست ہے کہ ان دواسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے لیکن سوال اٹھانے والے کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور نوازلیگی حکومتوں کے دور اقتدار کو ملاکر دیکھاجائے توان دس سالہ دور میں کل چار وزراء اعظم نے جمہوری عمل مکمل کرنے میں اپنا کردارادا کیا ہے جبکہ دو نے کرنا تھا ۔مطلب پیپلزپارٹی کا دور تھا تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالت کے فیصلہ پر چلتاکیاگیا اور راجہ پرویز اشرف کو پیپلزپارٹی وزیراعظم ہاوس لے آئی جبکہ نوازلیگی اکثریت کیساتھ ایوان میں پہنچی تو تیسری بار وزیراعظم بننے کا اعزاز نوازشریف کو ملالیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نوازشریف کو وزیراعظم ہاوس سے نکال دیاگیا۔اور پھر شاہد خاقان عباسی کی قسمت جاگی اور ان کو وزیراعظم بنا دیاگیا۔اسی طرح حالیہ جاری بحث میں ایک طرف یہ بھی کہاجارہاہے کہ 2002ء میں وجود میں آنیوالی حکومت بھی عوام کے مینڈیٹ کیساتھ وجود میں آئی تھی لیکن ناقدین کا کہناہے کہ ا س اسمبلی پر ڈکیٹر جنرل پرویز مشرف کا سایہ تھا اور موصوف نے ق لیگی قیادت کو اقتدار میں لانے میں اپنا کردار اداکیاتھا ۔اگر جنرل مشرف کی اسمبلی کو عوام کی اسمبلی تسلیم کرلیاجائے تو پھر عباسی کیساتھ تحلیل ہونیوالی اسمبلی تیسر ی اسمبلی ہے جوکہ اپنی مدت پوری کرکے گئی ہے ۔دلچسپ صورتحال یوں ہے کہ ان تینوں اسمبلیوں میں کوئی بھی وزیراعظم اکیلئے میں پانچ سال پورے نہیں کرسکاہے بلکہ اس کی توہین آمیز سلوک کیساتھ وزیراعظم ہاوس سے نکالاگیاہے ۔2002ء کی اسمبلی نے میر مظفراللہ جمالی کو وزیراعظم بنایاتھااور ان کی جنرل پرویز مشرف کیلئے تابعداری کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجودجنرل مشرف نے جمالی کو مدت پوری ہونے سے قبل ہی چلتاکیا اور شوکت عزیز کو وزیراعظم ہاوس لے آئے تھے ۔دس یاپھر جمہوری حکومتوں کے تین ادوار کا تذکرہ ہورہاہے،وہاں پر اس بات پر بھی بحث ہورہی ہے کہ کیا جمہوری قوتوں نے وہ حق حکمرانی اداکیاہے جس کیلئے انہیں عوام نے مینڈیٹ سے نوازتھا ؟ اہم سوال ہے ؟ اس کا جواب سیاسی جماعتوں کو دیناچاہیے ناکہ عوام میں جاکر اس بات پر واویلاکرنا چاہیے کہ ہمیں مکمل طورپر اقتدار نہیں دیاگیاتھا،ہم صرف عوام کے ٹیکسوں پر سیرسپاٹے کرسکتے تھے اور ذاتی کاروبار کیلئے خزانہ استعمال کرسکتے تھے اور بچوں کیلئے چار براعظموں میں جائیدا دیں بناسکتے تھے۔نوازلیگی حکومت کا پانچ سالہ اقتدار تو ابھی ابھی ختم ہوا ہے ۔ان کی کارکردگی یہ ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ میں ڈوب گیاہے۔اتنے قرضے تو 65 سالوں میں نہیں لیے گئے تھے جتنے انہوں نے پانچ سال میں لے لیے ہیں۔سمجھ نہیں آتی ہے کہ اتنے قرضوں کے بعد بھی عوام کی حالت نہیں بدلی ہے ۔لیگی حکومت کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار جوکہ پورے نظام اور عوام کو ماموں بنانے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے وہ اشتہاری ہیں۔آخر کیوں ؟ عدالتوں میں الزامات کا سامناکرنے سے کیوں گریز کررہے ہیں ؟ ادھر نوازشریف جوکہ وزیراعظم کی حیثیت میں اس ملک تھے وہ نااہلی کے بعد خود احتساب عدالت میں بیٹی ،داماد کیساتھ پیشاں بھگت رہے ہیں جبکہ ان کے فرزند وہ پاکستان میں باپ کیساتھ کھڑے ہوکر کرپشن اور دیگر الزامات کا سامنا کرنے کی بجائے برطانوی شہری بن کر پاکستان کے نظام کا مذاق اڑا رہے ہیں اور اشہتاری ہیں ۔اس صورتھال سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ لیگی حکمران خاندان نے کس طرح ملک کے وسائل کو اپنے اکاونٹ میں منتقل کرنے کیساتھ قوم کے مستقبل کیساتھ کھلواڑ کیاہے۔
وفا ق میں جسٹس (ر)ناصر الملک مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کے اتفاق رائے کے بعد نے نگران وزیراعظم تو بن گئے ہیں لیکن ان کی آمد کیساتھ ہی ان کے بارے میں سنجیدہ سوالات گردش کررہے ہیں جن میں ان کی ذات متنازع ہوسکتی ہے۔ ادھر پنجاب میں نگران وزیراعلی کیلئے جس طرح تحریک انصاف کی طرف ناصر کھوسہ کے نام پر اتفاق کرکے یوٹرن لیاگیاہے، وہ تحریک انصاف کی قیادت کیلئے بڑا جھٹکاہے،اس بات کا فائدہ پیپلزپارٹی کے لیڈر قمرالزمان کائرہ نے اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف پر سخت الفاظ میں تنقید کی ہے کہ یہ تبدیلی لائینگے ؟ دلچسپ صورتحال یوں ہے کہ ناصر کھوسہ ڈرامہ ڈراپ سین کے بعد بھی اب تک تحریک انصاف نگران وزیراعلی کیلئے کوئی ایک نام دینے کی بجائے ٹامک ڈوئیاں ماری رہی،کبھی اوریا مقبول جان کا نام دیتی ہے تو کبھی واپس لے لیتی ہے ۔اسی طرح حسن عسکری اور ایاز امیر کے نام بھی دے رہی ہے لیکن حتمی طورپر کچھ نہیں کہاجاسکتاہے کہ وہ کب اچانک کوئی اور نام لیکر نیایو ٹرن لے لیں اور تماشہ لگادیں ۔ تحریک انصاف کی اس طرح کی سیاست کے بعد لوگ منہ میں انگلیاں ڈال رہے ہیں کہ پی ٹی آئی لیڈر شپ کیاکررہی ہے ؟ جوکام کرنے کا تھا وہ نہیں کیاجارہاہے ۔مطلب پنجاب جوکہ بڑا صوبہ ہے اور اس میں اکثریت حاصل کرنیوالی جماعت کی مرکز میں حکومت یقینی ہوجاتی ہے ،اس کیلئے نگران وزیراعلی کے معاملے پر اس طرح کی توقع تحریک انصاف سے نہیں کی جارہی تھی جوکہ اب لوٹوں اور جتھوں کے بعد ایک بڑی جماعت کے طورپر اقتدا ر میں آنے کی دعویدار ہے ۔یوں لگتاہے کہ تحریک انصاف میں عمران خان کے قریبی صلاح کاروں میں نواز لیگی قیادت کا اہم بندہ کام کررہاہے جوکہ خاص موقعہ پر تحریک انصاف کی سبکی کروادیتاہے۔ مناسب ہوگا "امیر ترین” لوٹوں کی تعداد میں اضافہ پر کام کرنے کی بجائے ذرا منجی کے نیچے ڈانگ پھیر لیں کہ کون ہے وہ شخص جوکہ ان کو عوام میں شرمندہ کروانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتاہے۔پنجاب میں تحریک انصاف کو دھیان سے فیصلہ کرنے ہونگے ۔خاص طورپرلگاتار لوٹوں اور جرائم پیشہ افراد کی پی ٹی آئی میں آمد تحریک انصاف کو سیاسی سانحہ سے دوچار کرسکتی ہے ۔نوازلیگی قیات پنجاب کی سیاست پر مکمل کنڑول رکھتی ہے ۔ ماضی کو چھوڑیں ابھی مسلم لیگ نواز نے پنجاب میں پانچ پانچ سال کے دوادوار مکمل کیے ہیں ۔مطلب مرکز میں ان کے پانچ سال مکمل ہوئے ہیں تو پنجاب میں شہبازشریف دس سالہ اقتدار مکمل کرچکے ہیں ۔اس پورے اقتدار میں وہ پورے نظام حکومت کو یوں ہینڈل کرتے ہیں کہ لوگ ان کے خوف کی وجہ سے دوسری پارٹی کی طرف دیکھنے کی جرات نہیں کرتے ہیں ۔یہی وجہ تھی کہ پیپلزپارٹی کے لیڈر اعتزاز احسن نے راولپنڈی کے پپو پٹواری کا
فلو رآف دی ہاوس تذکرہ کیاتھا او ر ابھی کوٹ سلطان کے پٹواری اللہ بخش رونگھ او رمفتی نعیم جیسے کرداروں کی وارداتیں عوام تک نہیں پہنچی ہیں کہ وہ لیگی مافیا کیلئے کیاخدمات سرانجام دیتے ہیں ؟ اور عوام کو ذلیل کرتے ہیں۔پنجاب کی شہباز پولیس ان کے ہاتھوں کس طرح استعمال ہوتی ،اس بارے میں جاوید ہاشمی صاحب سے پوچھ لیں جب وہ تحریک انصاف میں تھے اور شہبازشریف کی پولیس ان کیساتھ کیاکررہی تھی ؟ باقی عوام کو چھوڑدیں کہ ان کیساتھ کیاہوتاہے ؟ لیگی امیدواروں اور تحریک انصاف میں بڑا ٹاکڑا پنجاب میں ہوگا جوکہ اقتدار کے حصول کی جنگ میں فیصلہ کن کردار اداکرے گا ۔یوں تحریک انصاف کو بڑی سوچ وبچار کے بعد میدان میں اترنا ہوگا ۔عوام کو الیکشن سے قبل اس کرپٹ مافیا کے چنگل سے نکالنا ہوگا جوکہ پولنگ کے روز لیگی پولیس ،پٹواری ،اساتذہ،سود خوروں اورضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت سے عوام کے مینڈیٹ کو طاقت کے زورپر اپنے امیدواروں کے حق میں استعمال کرتی ہے۔آخری بات جنرل الیکشن بروقت ہوں یا دیر سے لیکن اتنا ضرور ہوناچاہیے کہ انتخا بات صاف شفاف اور عوام کی امنگوں کے مطابق ہونے چاہیں۔ایسا نہ ہوکہ جلدی میں کروائے گئے الیکشن ملک کو ایک نئے بحران سے دوچار کردیں۔