پاکستان تحریک انصاف سربراہ عمران خان کی محبت ہے یاپھر اقتدار کی تبدیلی کی ہوا ہے کہ نوازلیگی ارکان اسمبلی جتھوں کی شکل میں بنی گالہ پارٹی کا جھند اگلے میں ڈال کر ایسے خوشی سے نہال ہورہے ہیں جیسے انکی زندگی کی آخری آروز پوری ہوگئی ہو ۔یہی پاکستان تحریک انصاف تھی اور عمران خان برسوں سے سیاست میں تھا لیکن ان فصلی بیٹروں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو عمران خان کو اس وقت جوائن کرتاجب وہ اپوزیشن میں تھا او راقتدار اس سے کوسوں دور تھا ۔اب جیسے ہی نوازشریف کی نااہلی اور موصوف کی سیاسی خودکشی کے شوق نے نوازلیگی پارٹی کا ماحول کو آلودہ کیاہے ،ان کو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جمہوریت کی خدمت یاد آگئی ہے۔جیسے اب نواز لیگی ارکان قومی اسمبلی غلام بی بی بھروانہ اورصاحبزاہ نذیر سلطان کو عمران خان کا ایجنڈا اسوقت پسند آیاہے جب لیگی حکومت کا وقت ایک ہفتہ کے برابر رہ گیاہے ۔ ادھر ڈیرہ غازی خان کے سردار جعفر لغاری نے بھی پاکستان تحریک انصاف میں چھلانگ ماردی ہے ۔اطلاعات ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی ان لیگی اور پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی اور ان کے ساتھیوں کا پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقات سے قبل انٹرویو کرتے ہیں اور سوال وجواب کا طویل سیشن ہوتاہے ۔یقیناًدلچسپ گفتگو دلچسپ ہوتی ہوگی اور اس کی ریکارڈنگ بھی کیجارہی ہوگی تاکہ بوقت ضرورت کام آسکے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی ان لیگی ارکان اسمبلی سے یہ سوال ضرور پوچھتے ہونگے کہ آخر اس وقت آپ کا پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کی محبت کا جنون لمبی تان کر کیوں سویاہواتھا ؟ جب پاکستان تحریک انصاف کے ورکر اور لیڈرشپ سٹرکوں پر تھی اور آپ کی لیگی حکومت ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی تھی بالخصوص نواز لیگی لیڈر نوازشریف ملک کا ستیاناس کررہا تھا، جس کی اب آپ تصدیق بھی کررہے ہیں ؟ سوال تو یہ بھی بنتاہے کہ کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ آپ اپنے لیگی قائد نوازشریف کے اقتدار میں اپنی باریک کاروائی ڈالنے میں مصروف تھے جوکہ آپ کی جائیدادوں میں دن دگنی اور رات چگنی کرنے کا سبب بن رہی تھی ؟ یاپھر خاکوانی صاحب معصومیت سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ کہیں اسی طرح بلدیاتی الیکشن میں پنجاب حکومت کی مکمل کاروائی کی چھتری میں آپ اپنے پیاروں کو ضلع کونسل کا چیرمین بنوانے کیلئے خاموش تھے ؟ یاپھر ترین یہ سوال بھی اٹھا سکتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آپ کو حلقہ کے عوام کی خدمت کا خیال لوٹا کی حیثیت میں اسوقت آتاہے جب آپ کو تسلی ہوجائے کہ اب جس پارٹی ہیں وہ اپوزیشن میں جارہی ہے لحاظ بے دید ہوجاؤ ، اسی لیڈر کے پاس چلے جاؤ جس کی ذات پر گھٹیا حملے کرتے تھے ۔اوراب اس کی وہ خوبیاں بیان کررہے ہو جن کے بارے میں موصوف کے قریبی دوست اور فیملی کے لوگ بھی واقف نہیں ہیں۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف کی صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ اس میں باقاعدہ پیپلزپارٹی تحریک انصاف اور نوازلیگی تحریک انصاف نے حقیقی پاکستان تحریک انصاف کو اقلیت میں بدل دیاہے ۔ان فصلی بیٹروں کی مسلسل لوٹا گردی کی بدولت اس بات کی اہمیت ختم ہوگئی ہے کہ کوئی نظریہ ہوتاہے ،کوئی اصول ہوتاہے ،کوئی اخلاقیات ہوتی ہے بلکہ ان کیلئے اپنی ذات کی خاطر چھلانگ لگانا جمہوریت ہے۔ادھرپاکستان تحریک انصاف کی قیادت جلدی میں ہے ، ان کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ ان کی اس سیاسی واردات کوعام شہریوں میں پسند نہیں کیجارہاہے کہ جوبھگوڑا آتاہے ،اس کے گلے میں خان صاحب اس لیے پارٹی پرچم ڈال دیں کہ الیکشن میں اکثریت حاصل کرنی ہے ۔عمران خان سے لوگ اس بات کی توقع نہیں کرتے تھے کہ وہ بھی اس دھندے میں گوڈے گوڈے چلے جائینگے جس میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگی پارٹی کھڑی تھیں ۔
لالہ عنایت اللہ میانوالی کاہے ،پنجاب پولیس کا پرانا پرزہ ہے اور زندگی کا بڑا حصہ لیہ میں گزار چکاہے ، تعلیم تو اس کے قریب نہیں گزری ہے لیکن پولیس کی نوکری کے تجربہ نے اس کو زمانہ کو سمجھنے کا گر ضرور بتادیاہے۔ یوں کبھی کبھار موصوف سے ملاقات ہوتی ہے تو اس کے پاس کوئی نا کوئی ایسی بات ہوتی ہے جوکہ بہت گہری ہوتی ہے ۔اس بار اپنی بستی جصیل کلاسرا جانے پر لالہ عنایت سے ملاقات ہوئی توموصوف سیاست پر بات کرنے کے موڈ میں تھے ،اور وہ بھی میانوالی کی سیاست پر ،یوں ہم خاموش ہوئے کہ پہلے لالہ کی پہلے سن لی جائے،اسی میں عافیت ہے وگرنہ میانوالی کا شہزادہ اپنی آئی پر آجائیگا ۔لالہ کاکہناتھاکہ وہ اس بات پرخوش نہیں ہے کہ جو منہ اٹھاتاہے ،اس کو عمران خان پارٹی میں شامل کرلیتاہے ،یوں گدھے گھوڑے کی شناخت ختم ہورہی ہے ۔مطلب حقیقی او رجعلی لیڈر شپ کو ایک برابر کردیاگیاہے ۔ ابھی لالہ کا تبصرہ جاری تھاکہ راقم الحروف نے لالہ سے پوچھا کہ اس کا نقصان پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کو کیاہوگا اور ہواہے ؟ لالہ عنایت اللہ کاکہناتھا کہ میانوالی میں جو بلدیاتی الیکشن اس دور حکومت میں ہوا ہے اس میں اکثریت عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کی تھی لیکن میانوالی کی چیرمین شپ نواز لیگ کے پاس ہے ۔میں نے پو چھاوہ کس طرح ہوگیاہے ؟ تو لالہ کا کہناتھا سیاست میں بہت اتارچڑھاؤ ہوتے ہیں جن کو سمجھنا پڑتاہے ۔ہوا یوں ہے کہ جس کامیاب رکن ضلع کونسل کو عمران خان نے میانوالی کی چیرمین شپ کیلئے پاکستان تحریک انصاف کا امیدوار نامزدکیا تھا،اس کی مخالفت میں پاکستان تحریک انصاف کے اپنے ہی ضلعی اسمبلی کے ارکان میدان میں آگئے ،ادھر عمران خان تھے کہ وہ اپنے فیصلہ میں لچک دکھانے کیلئے تیار نہیں تھے ،یوں پاکستان تحریک انصاف کا باغی دھڑا نوازلیگ کے امیدوار کیساتھ جاملااور وہ آرام سے ان کے مقابلے میں میانوالی کی چیرمین شپ کی پگ اپنے سر پر سجا کر ضلعی سیاست کو انجوائے کررہے ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف ایکدوسرے کا منہ تک رہی ہے۔لالہ عنایت کی اس بات کی تسلی کیلئے اپنے محترم افضل عاجز سے رابط کیاتو انہوں نے بھی اسی صورتحال کی تصدیق کی کہ ایسا ہی ملک کی مقبول ترین جماعت کے لیڈر عمران خان کیساتھ اپنے آبائی ضلع میانوالی کی مقامی سیاست میں ہواہے ۔