ضلع لیہ کی ایک خاصیت ہے کہ اس میں دریائی ( بیٹ ،نشیب) نہری ، بارانی یا صحرائی علاقے شامل ہیں۔ دریا کے پار کے علاقے کو بیٹ کہا جاتا ہے جہاں دو دیہائی قبل تک بیشتر رقبہ پر جنگل تھا ، کیکر کا درخت کثیر تعداد میں پایا جاتا تھا ، کاشت کاری اور آبادی محدود تھی جو لوگ وہاں آباد ہوا کرتے تھے وہ مویشی پال کر اپنا گزارہ کرتے تھے بیٹ کےوسیع و عریض جنگلات مویشیوں کی چراگاہیں بنی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ ، مٹر گندم ، اور گنا کاشت کیا جاتا تھا۔ لیکن موجود دور میں دریاوں میں پانی کی کمی اور جدید ٹیکنالوجی ومشینری کے پیش نظر گنا کی کاشت میں اضافہ ہوا ہے جوکہ اب شوگر ملز مالکان کی من مانیاں ، نامناسب ریٹس اور کٹوتیوں نے کسان کو مجبور کردیا ہے کہ وہ فصلات کو کم کرے ۔ ساتھ میں دریا کے دوسری جانب جہاں راستہ تو میسر ہیں کچہ کا علاقہ کہلاتا ہے ، گنا ، گندم ، مونگی ، چاول ، مکئی اور چارہ کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں میں بھی کسان کی کمر کو آڑھتی ، ملز مالکان سیدھا نہیں ہونے دیتے ، چند علاقوں بلکہ موضعات میں جاگیرداروں ، وڈیروں ، ملکوں ، مہروں ، سرداروں نے محکمہ ریونیو کے ساتھ ملی بھگت کرکے حقوق ملکیت و ایڈجسٹمنٹ میں الجھا رکھا ہے تاکہ ان علاقوں میں انکی اجارہ داری قائم رہے ، ان علاقوں میں رقبہ کا سالانہ ٹھیکہ ، مستاجری اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ مقامی کسان شدید پریشان ہے۔ دوسرا نہری علاقہ میں نہروں کی وارہ بندی ، سردیوں میں تین ماہ بھل صفائی کے نام پر بندش ، ڈیزل ، پٹرول ، کھادوں ، زرعی ادویات اور بیج کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ اور مہنگائی نے کسان کا حال خراب کردیا ہے ۔ سابقہ دو سال سے مختلف فصلوں کے بیج پر متعدد غیر رجسٹرڈ کمپنیاں معرض وجود میں آچکی ہیں جنکو روکنا ہمارے اداروں کے بس میں نہیں رہا بلکہ امسال غیر معیاری بیجوں کا اگاو ہی نہیں ہوا جن میں باجرہ ، مکئی اور کپاس ذکر فہرست ہیں۔ پنجاب گورنمنٹ کے پاس ایسا کوئی ادارہ ہی نہیں ہے کہ وہ بیجوں کے معیاری یا غیر معیاری ہونے اور اسکی قیمتوں کا تعین کرسکے ، محکمہ زراعت صرف رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ کی لسٹ دیکھ کر کاروائی کرسکتا ہے۔ جس سے کسان کو لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ، نزدیکی صحرائی وبارانی علاقہ میں فصل کا اگنا ، بڑھنا صرف اور صرف بارش کا مرہون منت ہے کہ ان علاقوں میں وقت پر بارش ہوگئی تو فصل اچھی ہوگئی جو نہ ہوئی کسان کو بیج اور دوران کاشت اخراجات کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اس سال اس علاقے میں یہی کچھ ہوا ، دوران کاشت بارش خوب ہوئی فصل کا اگاو بہتر ہوا ۔ فصل کے پھل پُھل کے موقع پر بارشیں زیادہ ہوگئیں تو چنا کی فصل نے پھل ہی تیار نہ کیا جس کا نقصان کسان کو اٹھانا پڑا کہ اوسط پیداوار ہی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ لیہ کے ان تینوں علاقوں میں موسم کی تبدیلیاں ، مہنگائی کا تناسب اور فصلوں کی پیداوار میں کسان کو برابر کا نقصان اٹھانا پڑا ، کم و زیادہ بارش بھی نقصان دہ ثابت ہوئیں ، مہنگی کھادیں اور زرعی ادویات ، غیر معیاری بیج اور موسم میں تبدیلیاں کسان کے لئیے مفید ثابت نہ ہوئیں۔ کسان کی فصل کو جہاں مہنگے داموں غیر معیاری بیج ، کھاد ، زرعی ادویات دے مڈل مافیا ، مل مالکان کھارہے ہیں وہی گنا کی فصل کو پریلا ، چاول کو کیڑا اور فنگس ، کپاس کو سبز تیلا ، سفید مکھی ، گلابی سنڈی ، لشکری ، امریکن اور چتکبری سنڈیوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے تو کبھی کبھار افریقی ممالک سے ٹڈی دل ، تلور بھی اپنا حصہ وصول کرجاتے ہیں۔ ۔دریائی علاقوں میں سیلاب نے فصلیں ڈبو دیں تو نہری علاقوں میں زیادہ بارشوں سے فصلوں کا نقصان ، بارانی علاقوں میں گھروں کا گرنے کے ساتھ فصلوں کا نقصان بھی کسان کو اٹھانا پڑ گیا ہے ، شہری علاقوں میں تو سوشل میڈیا ، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر گلی ، محلے و گھروں میں بارش کا پانی اعلی ایوانوں تک پہنچتا رہا لیکن گرتی دیوار کو ٹیک لگاتا اور بارش کے پانی میں غوطہ کھاتا کسان کم ہی لوگوں کو نظر آرہا ہے۔براہ کرم دریائی کٹاو اور سیلاب میں ڈوبتی فصل تو ساتھ کھیٹ میں کھڑی فصلوں میں دوبارہ اگتے شگوفوں کو تکتے کاشتکار کی آنکھ کی نمی پر بھی غور کرنا کہ غوطہ کھاتا کسان شاید کسی کنارے لگ سکے ۔۔۔۔