غلام رسول اصغر
تحریر ۔۔۔۔ محمد عمر شاکر
اصلاح معاشرہ کا ٹھیکہ لیے ہوئے لاوارث میتوں کی تدفین طلبہ کے لئے فیسوں کا بندوبست کرتے ہوئے بیوہ عورتوں کے لئے امداد اکھٹے کرتے ہوئے کیا آپ نے کبھی یہ بھی سوچاہے کہ غلام رسول اصغر جو کہ تمھاری کلاس کا آدمی تھا کے لئے تم کیا کر سکے ؟؟ بلا شبہ تم اور تمھارے دوست معاشرہ کی اصلاح کریں رفاحی اور سماجی کام کریں مگر یہ بھی سوچیں ایک ایسا دوست جو کہ قلم کاغذ قبیلہ سے منسلک تھا اور ہے اگر وہ بیمار ہے تکلیف میں ہے تو اس کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اس کے لئے کچھ کریں آج اگر اسے تمھارے قرب تمھارے حوصلہ تمھاری پشت پناہی کی ضرورت ہے تو کل تم یا تمھارا کوئی اور دوست بھی خدانخواستہ اس حالت میں آسکتا ہے کہ کہ تمھیں اس جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے جو آج بو رہے ہو چھوٹے بھائی کل اسے ہی تم اور تمھارے دوست اللہ نہ کرئے اگر ان کیساتھ کچھ ہوگیا تو کاٹیں گئیں مشفقانہ تلخ لہجے میں انجم صحرائی میں ڈبڈباتی آنکھوں سے یہ گفتگو مجھ سے کر رہے تھے انجم صحرائی ضلع لیہ کے جہاندیدہ بزرگ صحافی ہیں بلاشبہ انہوں نے صحافت برائے خدمت کی عملی تصویر پیش کر کے میدان صحافت میں شامل ہونے والے مجھ سمیت نئے صحافیوں کی حوصلہ افزائی بھی کی چند سال قبل جب انہوں نے اپنے تائیں یہ کوشش کی صحافی گروپ بندی کو چھوڑ کے یکجا ہوجائیں مگر اپنوں کی ہی شازشوں سے جب وہ اس ضمن میں کامیاب نہ ہو سکے تو انہوں نے پریس پالیٹکس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا بلا شبہ انکا یہ احسن قدم تھا غلام رسول اصغر یکم جنوری 1972ء فتح پور کے نواحی گاؤں 300ٹی ڈی اے میں پیدا ہوئے انکے والد شمار پیر بارو خواجہ محمد عبداللہ کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں سے ہوتا تھا غلام رسول نے ابتدائی طور پر ناظرہ قرآن پاک اور قرآن پاک کے چند سپارے بھی دربار پیر بارو شریف پر قائم مدرسہ سے حاصل کی جبکہ میٹرک تک تعلیم فتح پور سے حاصل کی 1986ء غلام رسول اصغر چوک اعظم شفٹ ہو گئے انہوں نے زمانہ طالب میں ہی اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز استقلال سٹوڈنٹس فیڈریشن سے کیا 1988ء میں غلام رسول اصغر نے قومی اسمبلی کے امیدوارسید خورشید شاہ بخاری جو کہ اسوقت عوامی اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں ٹریکٹر کے نشان پر این اے 139سے حصہ لے رہے پی پی 215میں مہر منظور حسین کلاسرہ اور پی پی 216جو کہ لیہ شہر کی سیٹ تھی میں شیخ نذر حسین ایڈوکیٹ کی انتخابی مہم بھر پور انداز میں چلائی عملی سیاست میں قدم رکھتے ہی غلام رسول اصغر تحریک استقلال میں شامل چوک اعظم شہر میں 1990ء میں پہلے جنرل سیکرٹری نامزد ہوئے غلام رسول اصغر شب وروز تحریک کے لئے کوشاں رہے اور جلد ہی ائیر مارشل اصغر خان کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے میدان سیاست میں نوارداور سیاسی داؤ پیچوں سے نا بلند غلام رسول اصغر نے 1990ء میں آئی جے آئی کے امیدوار سید خورشید شاہ بخاری کی بجائے پی ڈی اے کے امیدوار ملک نیاز جھکڑ کو سپورٹ کیا جو کہ الیکشن ہار گئے مگر اس کے بعد غلام رسول اصغر کے لئے کھٹن دور شروع ہو گیا سیاسی میدان اور سیاست دانوں کے رویوں کے باعث غلام رسول اصغر نے 1992میں شادی کے بعد 1994ء میں شعبہ صحافت کو اختیار کیا اسوقت چوک اعظم لیہ میں اخبارات لاہور سے آتے تھے غلام رسول اصغر نے روز نامہ دن لاہور اور ہفت روزہ رئیس لیہ سے صحافت کا آغاز کیاغلام رسول اصغر نے 1996ء میں پریس کلب چوک اعظم کی بنیاد کرائے کے دفتر میں رکھی بعد آزاں عبدالروف نفیسی کی صدارت میں صحافیوں نے کوشش کر کے چلڈرن پارک میں سرکاری عمارت میں پریس کلب کا دفتر حاصل کیا ابتدائی طور پر ملک امیر محمد اعوان روز نامہ نوائے وقت لاہور منشی دوست محمد روز نامہ جنگ لاہور اور حق نواز جو کہ خاکسار تحریک سے وابستہ اور کراچی سے شائع ہو نے والے اخبارات و رسائل سے منسلک تھے منیر عاطف باجوہ صاحب بھی میدان صحافت میں قدم رکھ چکے تھے سمیت متعدد صحافیوں کیساتھ مل کر بنایا غلام رسول اصغر نے غریب اور متوسط طبقہ کے حق کے لئے متحرک کردار ادا کیا وہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک تحریک تھے اور ہیں شہری اتحاد چوک اعظم امن فورم سمیت مختلف اوقات میں انہوں نے مختلف سماجی تنظیموں کی بنیاد رکھی دانش فاونڈیشن کے وہ صدر اور بانی تھے غلام رسول اصغر بہترین مقرر تھے اور انکی گفتگو مدلل ہوتی غلام رسول اصغر دوآبہ فاونڈیشن سے بھی منسلک تھے غلام رسول اصغر نے ہمیشہ واضح اور دو ٹوک موقف ہی رکھا جس کے سبب بسا اوقات انہیں انکے ساتھیوں اور خاندان کو مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شب وروز محنت کر کے ایک نواحی پسماندہ گاؤں میں انکھ کھولنے والے غلام رسول اصغر نے ملک بھر میں اپنی شناخت بنائی مگر ان حالات میں جب برس ہا برس کی چوک اعظم کی صحافتی برادری جو کہ گروپنگ کا شکار تھی ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ کے ذمہ داران کی مداخلت پر غلام رسول اصغر کی بطور صدر پریس کلب اور اکمل سندھو کی بطور جنرل سیکرٹری پریس کلب نامزدگی پر اکٹھی ہو رہی اور بلدیاتی الیکشن میں غلام رسول کے شبانہ روز محنت کے سبب پاکستان مسلم لیگ کے نامزد امیدوار ملک ریاض گرواں چئیرمین میونسپل کمیٹی کامیاب ہو رہے تھے غلام رسول اصغر کو رات کی تاریکی میں بزدلی دکھاتے ہوئے نامعلوم شخص نے پشت پر وار کرتے ہوئے فائر مارا پھر کیا تھا برس ہا برس سے جن کی آنکھوں میں غلام رسول اصغر یا اس جیسے متوسط غریب طبقہ کے افراد کانٹا بن کر قلم کار صحافی یا سماجی ورکر کھٹکتے تھے وہ خفیہ کردار متحرک ہوئے اور انہوں نے بزدل حملہ آور کی طرح سامنے آنے کی بجائے خفیہ رہتے ہوئے پولیس تفتیش کا رخ اپنی من مرضی کا پھیرا گزشتہ ایک سال بلاشبہ غلام رسول اصغر اپنی فیملی کے ہمراہ چند دوستوں کے ہمراہ تن تنہا اپنی بیماری سے لڑ رہا ہے وہیں سرمایہ داروں جاگیرداروں نے جہاں اس سے منہ موڑ لیا وہیں انجم صحرائی کی بات درست ہے کہ اس کے قلم کاغذ کے قبیلہ کے ساتھیوں اور سماجی ورکروں نے بھی روائتی بے حسی کا مظاہرہ کیا ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ کی ایک کمیٹی جس میں مضافات کے پریس کلبز کے نمائندگان اور سماجی کارکنان بھی شامل ہوں انہیں غلام رسول اصغر کی مستقل خبر گیری کرتے ہوئے دنیا بھر میں موجود میڈیکل کے شعبہ میں سہولیات کے سبب چلنے پھرنے کے قابل بھی بنانا ہو گا قبل ازیں بھی صحافیوں کے ایک وفد نے وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی مہر اعجاز اچلانہ کے گھر انکی آ مد کے موقع پر ملاقات کر کے غلام رسول اصغر کے سرکاری علاج کے لئے کوشش کرنے کی درخواست کی تھی مگر شو مئی قسمت کہ وہ پراسس مکمل نہ ہو سکا اب وزیر اعلی پنجاب کی لیہ آمد پر ان سے ایک وفد کی غلام رسول اصغر کے سرکاری علاج معالجے کے لئے اندرون ملک یا بیرون ملک سرکاری سطح پر ضلع بھر کی صحافی برادری کو مضبوط متفقہ لائحہ عمل بنانا چاہیے اگر وہ نا بھی ممکن ہو تو اپنے طور پر ہی صحافی برادری سمیت سماجی کارکنوں کو کردار ادا کرنا چاہیے ۔۔