اب جس معاشرے میں طلباء سر عام ڈنڈوں سے اپنے استاد کی خبر گیری کرتے نظر آ ئیں اور استاد سرائیکی وسیب کے استاد شا عر کے انقلابی کلام اور لا طینی امریکہ میں انسانی حقوق کے لئے بلند ہو نے والی آوازوں پر مبنی صد یوں کی تاریخ کا تقا بلی جائزہ پیش کرتے کرتے تقریب کے مسند نشیں سرداروں اور تمن داروں کو حرامزادے کہتے ہو ءے بے غیرتی کے طعنے سنانا شروع کر دے وہاں کے سماجی شعور بارے تعزیت ہی کی جا سکتی ہے ۔
اگر میں کہوں کہ ہم عہد دشنامی میں جی رہے ہیں تو شا ید غلط نہ ہو گا ۔۔ گلی محلوں سے پارلیمنٹ کے مقدس ایوانوں تک سیاسی جلسے ہوں یا ادبی محا فل ہر جگہ گا لیوں نے اپنی جگہ بنا ئی ہو ئی ہے ۔ رہی سہی کسر اس مو ءے سوشل میڈ یا نے نکال دی ہے جہاں ہو دوسری پو سٹ پر ہمیں لعنت اور بے غیرت قسم کے کمنٹس پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ کو ءی شب نہیں گذرتی جب گا لیوں سے مزین وائس میسجز سننے کو نہ ملتے ہوں ۔
اب سوال یہ ہے کہ دشنام طرازی کے اس ما حول میں میں سیاسی نظریاتی انقلاب کیسے ممکن ہے ؟
بجا کہ ہم عہد دشنامی سے گذر رہے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ دشنام طرازی بھی ایک فن ہے ۔حضرت غالب نے کہا تھا کہ گا لیاں دینے کے بھی آ داب ہیں جب بھی کو ئی بے ادب ہو کر گا لیاں نکالے گا اسے گالیاں سہنے والوں کے شدید رد عمل کا سامنا تو کرنا پڑے گا
آج گا لیاں میدان سیاست کی سو غات بن چکی ہیں ۔ ہم سر ہم سروں کو گا لی دے تو سیاست کہلا تی ہے اب اگر عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو ریلو کٹے ، چور ، ڈاکو ، بے شرم اور بے غیرت کہے تو سمجھ آ تا ہے ۔ شیخ رشید بلو رانی کہہ کر لفظی چٹخارے لے تو برداشت ہو تا ہے ۔ بلاول بھٹو ،سراج الحق اور مو لانا فضل الرحمن سلیکٹڈ اور ٹبر چور کی کیسٹ چلائیں تو جائز ، خواجہ آصف صنف نازک کو ٹریکٹر ٹرالی کا خطاب دے دیں تو صحیح ۔۔
لیکن یار اس ساری دھما چو کڑی میں ایک استاد اور دانشور کو یہ کس نے حق دے دیا کہ وہ سیاستدانوں کو سنانا شروع کر دے و ہ بھی اس پنڈال میں جہاں بیٹھے تا لیاں بجانے اور واہ واہ کر نے والوں کی اکثریت استاد کی فالور نہیں بلکہ ان میں بیشتر کا تعلق خان ، سردار ،سا ئیں ، گودھا اور خوا جوں سے نہ صرف نسلی طور پر بلکہ جذ با تی اور عقلی طور پر اسی طرح جڑا ہے جس طرح صدیوں پہلے ان کے بزرگ جڑے تھے ۔
استاد عقل و دانش کی بات کرتے اچھے لگتے ۔ استحصالی نظام کے خلاف بات کریں تو زیادہ لو گوں کی سمجھ میں آ سکتی ۔ نظام کے خلاف بات کرتے ہو ءے کتنا بھی سخت لہجہ استعمال کر لیں سننے والوں کو سمجھ آ ءے گی اور وہ آپ کے نظریے کا سا تھ دیں گے ۔ مجھے یا د ہے کہ پی ڈی اے تحریک کے زمانہ میں مجھے راجن پور میں یوم سیاہ کے ایک جلسہ میں بحیثیت مہمان مقرر شر کت کا مو قع ملا ۔ سردار بہرام خان سیہڑ مر حوم بھی میرے ساتھ تھے ۔ وہاں جلسہ میں عام سے کپڑوں میں ملبوس ہوا ئی چپل پہنےجا م پور کے ایک شا عر{ نام بھول رہا ہوں } نے پڑھا ۔۔
نہ لغاری رہے نہ مزاری رہے
جنگ جاری رہے جنگ جاری رہے
سٹیج پر لغاری مزاری ۔ گردیزی اور خان سردار سبھی مو جود تھے سبھی خاموش سنتے رہے کہ وہ قلندر نما شا عر کسی شخص کو پڑھنے کی بجاءے جا گیردارانہ نظام کے خلاف آواز بلند کر رہا تھا ۔ حبیب جا لب کی شا عری کو دیکھ لیں
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ۔ میں نہیں جا نتا
ظلم کی بات کو ۔جہل کی رات کو
میں نہیں ما نتا ، میں نہیں جا نتا
حبیب جا لب نے یہ شعر وہاں سنا ءے جہاں اقتدار اور اقتدارءیے سبھی مو جود تھے لیکن کسی کو جراءت نہیں ہوئی کہ دھکے دے کر سٹیج سے اتارے ۔
مجھے صحافت کے ساتھ ساتھ سیاست کا بھی شوق تھا دو نوں میدانوں میں جا گیردارانہ سیاسی نظام اور سدا بہار اقتدار پرست چہرے میرے حریف رہے ۔ 36/40 کی سیاسی و صحافتی جدو جہد میں بہت سخت لکھا بھی اور بو لا بھی مگر آج تک کہیں خجا لت نہیں ا ٹھا نا پڑی سبب صرف یہ کہ زیر بحث مو ضوع نظام رہا ، استحصال رہا کسی کی ذات یا قبیلہ کو گا لیاں نہیں دیں اس کے عمل کو تنقید کا نشا نہ بنا یا ۔۔اور لو گوں کو میری تنقید اور بات سمجھ بھی آ ئی ۔۔
گا لیاں انقلاب اور تبدیلی نہیں لا یا کر تیں نظام کے ستاءے ہو ءے لو گوں کو آرگنائز کر کے ہی مقا صد حاصل کئے جا سکتے ہیں میرا خیال ہے {آپ میری اس راءے سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں }۔ ہمارے شا عروں ، دانشوروں اور اسا تذہ کو استحصالی سیاسی نظام کے خلاف فکری تحریک کے خدو خال متعین کر نے اور عوامی حقوق پر مبنی اپنے بیا نہ کو از سر نو تر تیب دینے کی ضرورت ہے ۔