ہر شخص مختلف سوچ رکھتا ہے اور اپنی سوچ یا فلاسفی کے حق میں دلائل دے کر سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے. آج سرعام پروگرام والے سید اقرارالحسن کے انٹرویو کا ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں اقرارالحسن کا کہنا تھا کہ جب عوام ٹھیک ہوگی توحکمران خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے. ایسی باتیں بہت سے لوگ کہتے رہتے ہیں اور اقرارالحسن کی طرح سب کے پاس اس کے حق میں لمبی چوڑی دلیلیں بھی ہیں… جبکہ یہ سننے کے بعد میرے ذہن میں کچھ سوالات ابھرتے ہیں:
1- کیا مدینہ منورہ کی عوام جس میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آباد تھے وہ سب لوگ بالکل ٹھیک تھے یا وہاں ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آمد اور بہترین قیادت کی بناء پہ ایک مثالی ریاست کا قیام عمل میں آیا؟
2- اسی طرح خلفائے راشدین کے دور میں مسلمانوں کی فتوحات کے بعد جو بہترین نظام عمل میں آیا وہ عوام کی اچھائی کی بناء پہ آیا یا اسلامی ریاست کے صاحب اقتدار کے عمل اور طرز حکمرانی ہی وجہ تھی.
3- اگر عوام نے ہی اپنی اچھائی سے بہتر حکمران لائے ہوتے تو آج تاریخ میں عوام کو ہیرو گردانا جاتا نہ کہ بڑے بڑے حکمرانوں کو. جبکہ تاریخ کے اوراق بہترین حکمرانوں کی بدولت ریاستی ترقی، انصاف اور خوشحالی بیان کرتی ہے.
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جب حکمران مالی، اخلاقی اور ذاتی اعتبار سے باکردار اور مثالی ہو گا تو یقیناً وہ اخلاص اور دلیری کا مظاہرہ کرے گا.. گو کہ صرف مخلص اور نڈر ہونے سے کام نہیں چلتا یقیناً فہم و فراست اور بہترین قائدانہ صلاحیتوں کا ہونا بھی لازم ہے. ایسی صفات کا شخص ہی اپنی ذات کی نفی کرکے قومی زندگی کو اولین درجہ اہمیت دے سکتا ہے.
اگر صاحب اقتدار اپنے کردار، اپنے عمل میں مضبوطی دکھائے گا تو اس کی ساری سرکاری مشینری ڈر اور خوف کی کیفیت میں مبتلا قانون پہ عمل بھی کرے گی اور اپنے محکموں میں بھی عمل درآمد کرائے گی. جب پورے معاشرے میں ایسا ماحول پیدا ہو گا کہ قانون اور بنیادی قواعد پہ سختی سے عمل درآمد ہو اور کسی جائز کام کے لیے نہ سفارش اور نہ رشوت کی ضرورت ہو تو ایک مثبت سوچ اور بہتر ماحول اپنی جگہ بنا لے گا. عوام کو جب انصاف نہ ملے بلکہ انصاف ملنے کی امید ہی نہ ہو، جب بنیادی حقوق اور ضروریات ملنے کا یقین نہ ہو، جب حق کی امید نہ رہے جبکہ ہر طرف اندھیرا ہی نظر آتا ہو تو وہ مایوسی کی کیفیت کا شکار ہو کر ہر وہ عمل کرنے کو تیار ہو جائے گی جس سے اس کی وقتی ضرورت پوری ہو سکے. جبکہ یہی سوچ عام عوام کو بھی اپنی بساط تک کرپشن اور لاقانونیت کی طرف لے جاتی ہے. اور ہم کہتے ہیں کہ جب عوام ایسی ہے تو حکمران بھی ایسے ہی ہوں گے…
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کیفیت کا حل کیا ہے؟
1- شعوری تعلیم و تربیت
2- جمہوریت بلکہ حقیقی جمہوریت کا تسلسل
3- غیرجمہوری سوچ اور غیر جمہوری عناصر سے پاکی
4- سیاسی جماعتوں میں حقیقی جمہوریت کے لیے سیاسی جماعتوں کے اصلاحی اور جمہوری قواعد
5- اقتدار کی نچلی سطح پہ منتقلی. مقامی خودمختار حکومتوں کا قیام.
6- صاحب اختیار ( سیاسی، انتظامی یا کوئی سرکاری عہدیدار) کی کرپشن ثابت ہونے پہ سزائے موت کا قانون.
7- فوری اور مفت انصاف کم سے کم وقت میں.
8- رہائش، تعلیم، روزگار اور صحت حکومتی ذمہ داری
کوئی سیاستدان ایسا قانون نہ بنائے گا نہ ہی اس طرح سوچے گا…
لیکن اگر عوام متحد ہو کر ایسے مطالبات کرے گی تو آوازِخلق بہت طاقت رکھتی ہے.