اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نورالحق قادری کا کہنا ہے کہ عمران خان کی موجودگی میں مائنس ون سے مائنس آل ہو جائے گا۔
غیر ملکی ویب سائیت کو دیئے گئے انٹرویو میں پیر نورالحق قادری نے کہا کہ عمران خان کی موجودگی میں ’مائنس ون‘ تو ’مائنس آل‘ ہو جائے گا کیونکہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کا ووٹر، ورکر اور رکن پارلیمنٹ کسی کو اس طرح قبول نہیں کرے گا، یہ کہنا مشکل لگتا ہے کہ جب اکثریتی پارٹی باہر ہو جاتی ہے تو پھر وہ ایوان کیسے چلے گا؟
وفاقی وزیر نے کابینہ میں وزرا کے درمیان منتخب اور غیر منتخب کی بحث کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں (منتخب اور غیر منتخب کابینہ ارکان کی) بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’نان الیکٹڈ‘ کا انتخاب بھی ’الیکٹڈ‘ ہی کرتا ہے۔ وزیراعظم منتخب ہیں انہوں نے اپنی ٹیم کا انتخاب کرنا ہے۔ مثلاً ایک خاص شعبے کے لیے آپ کو پارلیمنٹ کے اندر سے اس طرح کا ایکسپرٹ نہیں ملتا جو کہ آپ کو کہیں باہر سے ملتا ہے تو اسے کیوں نہ شامل کریں، اور اپنا کام چلائیں۔ اس حوالے سے ہماری حکومت میں مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ظاہر ہے فیصلے وزیراعظم کو کرنا ہوتے ہیں اور آخری رائے ان ہی کی ہوتی ہے، خواہ وہ تجویز الیکٹڈ کی طرف سے آئے یا یا نان الیکٹڈ کی طرف سے آئے۔
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حوالے سے پیر نورالحق قادری نے کہا کہ وزارت مذہبی امور کو علمائے کرام کی طرف سے بھیجے گئے اعتراضات میں سرکاری فنڈنگ پر سوال اٹھایا گیا تھا مگر مندر کی تعمیر پر کسی کو اعتراض نہیں۔ مندر کی تعمیر کے لیے زمین 2017 میں الاٹ ہوئی تھی اور پھر اس پر اسلام آباد میں ہندو کمیونٹی کی پنچائیت کمیٹی اور اقلیتی ایم این ایز نے ہم سے رابطہ کیا اور فنڈز کے لیے کہا تو ہم نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی فنڈز موجود نہیں ہیں ہم صرف مرمت و تزئین آرائش کے لیے فنڈز دیتے ہیں۔ کوئی نئی عمارت کھڑی کرنے کے لیے اقلیتوں کے حوالے سے یا حتٰی کہ مساجد کی تعمیر کے لیے بھی ہمارے پاس کوئی ایسا فنڈ نہیں۔ ان کی وہ درخواست وزیراعظم کو بھیج دی گئی تھی لیکن اس پر کچھ پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ نہ فنڈز منظور ہوئے تھے اور نہ کوئی وزیراعظم ہاؤس سے منظوری آئی تھی کہ یہاں پر لوگوں نے شور شرابہ شروع کیا۔
پیر نورالحق قادری کا کہنا تھا کہ ہندو کمیونٹی نے اپنے وسائل سے مندر کی تعمیر کے لیے تھوڑا کام شروع کیا تھا اور بنیادیں رکھنی شروع کر دی تھیں۔ اس میں حکومت کا کوئی پیسہ نہیں تھا تو اس پر پھر یہ سوال علما کی طرف سے آنے لگے کہ آیا اسلامی ریاست میں یا پاکستان جیسے ملک میں جہاں اقلیتوں کی عبادت گاہ کے لیے سرکاری پیسہ، جو اکثریت مسلمانوں کا پیسہ ہے وہ خرچ کیا جا سکتا ہے؟، یہ ایک شرعی سوال تھا جس کا جواب ضروری تھا اس کو ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف بھیج دیا۔