اوہ سر !آپ یہاں؟ ایک شادی میں دیار مہر کے منیجر مہر فضل الہی نے مجھ سے بغلگیر ہوتے ہو ئے گرمجوشی سے پو چھا ، کب آ ئے دو بئی سے سر ۔ ہم تو سمجھ رہے تھے ابھی یو اے ای میں ہیں آپ ؟ خوب لکھ رہے ہیں سر آپ دو بئی سفر بارے ۔۔ میں نے آپ کے سارے کالم پڑھے ہیں ۔۔ مہر فضل نے ایک سانس میں اپنی بات مکمل کی ۔یہ واقعہ پہلی بار رونما نہیں ہوا ۔مجھے ایسی اچانک صورت حال سے واسطہ پڑتا رہتا ہے ۔
کل صبح ایک نو جوان کے جنازے میں شریک تھا نماز جنازہ کے بعد دوستوں سے مل رہا تھا کہ ایک شناشا چہرے سے بھی ملاقات ہو ئی ، معذرت بر سوں بعد ملنے کے سبب نام تو یاد نہیں آ رہا ، گلے ملنے کے بعد کہنے لگے یار تمہارے کالم تمہیں بھو لنے نہیں دیتے ۔۔ ایک دن لا ہور سے مظہر کی کال آئی ، مظہر ایک سکول ٹیچر ہیں۔۔کہنے لگے ۔۔ انجم بھائی ! تھوڑی سی کینسر کی تکلیف ہو گئی ہے ، بیٹا لا ہور میں ڈاکٹر ہے ۔۔ جناح ہسپتال سے کیمو تھراپی کرا رہا ہوں ۔۔ آپ کا کالم پڑھا سو چا سلام کر لوں ۔۔ دعا کیجئے گا ۔۔ واپس آ تا ہوں تو مبارک باد دینے کے لئے حاضری دوں گا آپ پر ایم فل تھیسز ہو نے کی ؟
سچ میں مجھے میرے رب نے اپنے بندوں کی محبتوں کا اتنا مقروض کر دیا ہے کہ سمجھ نہیں آ تا کہ اللہ کریم کی اس بے پایاں رحمت اور نعمت کا کیسے شکر ادا کیا جائے ، بھلا ہو فیس بک اور سوشل میڈیا کا کہ کچھ کرنے والوں کو ان کے قدر دان مل ہی جا تے ہیں۔ در رسول ْﷺ پر با سعادت حاضری بارے لکھَے گئے میرے ایک کالم "جسے چا ہا در پہ بلا لیا "کو فیس بک پر چا لیس ہزار سے زیادہ پڑھنے والوں نے لا ئک کیا میرا ایمان ہے کہ یہ کمال میری تحریر کا نہیں بلکہ یہ اعزاز کالم میں ” ذکر مصطفی ﷺ” کا ہو نا ہے ۔
جسے چا ہا در پہ بلا لیا جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
کچھ ایسا ہی واقعہ دو بئی گوگل ویلج میں بھی پیش آ یا جھیل کنارے ہم بیٹھے پا نی میں تیرتی، بکھرتی اور اٹھکیلیاں کرتیں رنگ برنگی منعکس رو شنیوں میں گم تھے کہ ا چا نک شلوار قمیض میں ملبوس ایک نو جوان عین ہمارے سا منے آ کر جھیل کنارے کھڑا ہو کر تصویریں بنا نے لگا ۔ چند لمحوں بعد اس نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ کام کام کرتے کرتے اچانک پھر اس نے مجھے مڑ کر دیکھا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں سناشائی کی جھلک دکھائی دی۔۔ وہ دھیرے دھیرے میرے پاس آ یا اور قدرے جھجھک کے پو چھا۔۔ سر ! آپ پا کستان سے ہیں ؟
ہاں جی میں پا کستان سے ہوں ۔۔ میں نے اسے دلچسپی سے دیکھتے ہو ئے جواب دیا ،،
جی میں اشفاق ہوں ۔۔ اشفاق شاہ ، پنڈی گھیپ سے ۔۔ میں یہیں دو بئی میں ہو تا ہوں ۔۔
اور مجھے انجم صحرائی کہتے ہیں ،میں لیہ پنجاب سے ہوں ۔۔ میں نے اپنا تعارف کرایا ۔۔
سر آپ لکھتے ہیں نا۔۔ مطلب کالم وغیرہ
جی میں لکھ لیتا ہوں کبھی کبھی ۔۔
میں آپ کی تحریریں پڑھتا رہتا ہوں سر ۔آپ کی خود نوشت تھی شا ئد
ہاں جی ۔۔” شب و روز زند گی "۔۔ لیکن آپ نے کیسے پڑھی ؟۔۔
سر۔۔ فیس بک پر ۔۔سر میں آپ کی کیا خد مت کر سکتا ؟
میرے شکریہ ادا کر نے کے سبب پنڈی گھیپ کے اشفاق شاہ سے ملاقات خاصی مختصر رہی۔۔
چند سال قبل لا ہور سے ایک محترمہ نے ٹیلیفونک رابطہ کیا، ا نہوں نے بتایا کہ وہ ایک معروف میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں اور اپنے زیر تکمیل کسی پرا جیکٹ کے لئے میری کتاب "پا کستا نی اقلیتیں ” سے استفادہ کرنے کی خوا ہشمند ہیں ۔۔ مجھے ان کی بات سن کر بڑی حیرانی ہو ئی "پا کستانی اقلتیں ” سال1984 میں شا ئع ہو ئی تھی ۔۔ میں نے پو چھا کہ انہیں میرے اور میری کتاب بارے کیسے پتہ چلا۔ تو جواب ملا۔۔ فیس بک سے ۔۔
گذشتہ دنوں ڈاکٹر حمید الفت ملغانی کی نگرانی میں سعید یو سف نے گورٹمنٹ کالج لا ہور یو نیورسٹی سے اپنا ایم فل تھیسزمکمل کیا ۔تھیسز کا عنوان تھا ” انجم صحرائی کی ادبی و صحافتی خدمات ” بلا شبہ یہ مکتب صحافت کے مجھ جیسے طفل مکتب کے لئے یہ ایک اعزاز ہے ۔ سینئر صحافی فرید اللہ چو ہدری کا کہنا تھا کہ استاد جی۔ آپ پر ایم فل تھیسز کئے جانے پر ہمارے لئے اہم بات یہ ہے کہ ارباب علم و دانش کی گراس روٹ لیول پر کام کرنے والے صحافیوں پر بھی نظر پڑی اور انہیں بھی یہ یقین آیا کہ یہ طبقہ بھی ادب اور صحافت کے میدان میں ایک موثر کردار ادا کر رہا ہے۔
اس سے قبل عنا ئت اللہ بلوچ جنہوں نے بی زیڈ یو سے جرنلزم میں ماسٹر کیا تھا ان کے ایم فل تھیسز میں بھی صبح پا کستان اور میری صحافتی کار کردگی بارے خاصی سیر حاصل بحث مو جود تھی ۔۔یہ غالبا ذکر ہے 2003 کا اور تھیسسز کا عنوان تھا ” ضلع لیہ کی صحافتی تاریخ کا تقا بلی جا ئزہ ”
دو ستو۔۔ زند گی میں لکھنے اور بو لنے کے سوا کچھ کام نہیں کیا۔ اگر کبھی کیا بھی تو کا میاب نہیں ہوا۔۔ شا ئع ہو نے والی تین کتب کے علاوہ سال 1996 سے” بلا مبا؛لغہ” کے عنوان سے شا ئع ہو نے والے کالمز اور” بات بتنگر "کے عنوان سے شا ئع ہو نے والے مضامین کے سا تھ” شب و روز زند گی” میرے گذرے دنوں کا تفصیلی حساب کتاب ہے ، روز نامہ داور لیہ اور جیواردو ڈاٹ کام۔ فرانس پر شا ئع ہو نے والے اس سلسلہ مضا مین کی اب تک ستر کے قریب اقساط شا ئع ہو چکی ہیں ۔ شب و روز زندگی کی ساری اقساط صبح پا کستان کے فیس بک پیج اور صبح پا کستان کی ویب سا ئٹ (صبح پاک ڈاٹ کام ۔پی کےsubhepak.com.pk ) پر بھی دستیاب ہیں ۔
ڈاکٹر ظفر ملغانی ، سعید سو ہیہ اور سید نعیم شاہ ایڈوو کیٹ اور آسٹریلیا سے اظہر اقبال سمیت بہت سے دوستوں کا اصرار ہے کہ "شب و روز زندگی "کو کتابی شکل میں شا ئع کیا جائے۔۔ میری بھی خواہش ہے کہ "شب وروز زندگی "کتاب کی صورت قارئین کے ہاتھوں میں ہو۔ سچی بات نعمان بیٹے نے نے مجھے شب وروز زندگی کی اشاعت کے لئے بجٹ مہیا بھی کر دیا تھا۔۔ کہ ابو یہ لیں اور شوق پورا کریں ۔۔ مگر۔۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا ۔۔ میں تا حال "شب و روز زند گی "مکمل نہیں کر سکا۔۔
قارئین کرام ! معذرت آج لکھنے تو بیٹھا تھا ابو ظہبی میں گذارے یاد گار لمحات کو۔۔ مگر بات کچھ اور چل نکلی ۔۔ انشاء اللہ اگلی ملاقات میں ہم آپ کو لے چلیں گے یو اے ای اور سیر کرائیں گے ابو ظہبی کے لوو میوزیم (louvre museum) اور شیخ زائد مسجد (Sheik Zayed Mosque,) کی ۔۔ یار زندہ صحبت باقی
باقی احوال اگلی قسط میں ۔۔
انجم صحرائی
محترم جناب انجم صحرائی صاحب ۔
ہمارے لئیے یہ ایک اعزاز ہے کہ آپکی تحریروں سے کچھ حاصل کرلیتے ہیں۔ حاصل ہی کرتے ہیں عمل نہیں کرسکتے کیونکہ نوجوان گردانتے ہیں خود کو ۔ اور آپ تو بہتر جانتے ہیں کہ خود کو نوجوان سمجھنے والے دوسروں کی سنتے بھی کم ہیں اور عمل بھی کم کرتے ہیں۔۔۔اللہ تعالی سے دعاگو ہیں کہ آپ کے چاہنے والوں کی تعداد میں جہاں پہلے ہی اچھی خاصی تعداد موجود ہے مزید اضافہ ہو۔اور لمبی زندگی دے اور آپکا شفقت بھرا سایہ ہم پر برقرار رہے۔۔ باقی آپکی خودنوشت اور تحریروں کی کتابی شکل آنی چاہئیے ۔ کیونکہ آج نہیں تو کل ہم اپنے بچوں کو دکھا سکیں گے کہ لیہ میں ایسے بھی لکھاری تھے ، جو ہر لمحہ پر ہماری انگلی پکڑ کر سیدھا چلانے کی کوشش کرتے تھے لیکن ہم پھر بھی بھاگ جاتے تھے۔۔ لیکن انکی تحریریں خوبصورت ہوتی ہیں۔۔۔۔۔