وہ میری تصویر بنا رہا تھا اور میں سامنے بیٹھا اسے دیکھے جا رہا تھا ، میرے انہماک نے شائد مجھے خاصا سنجیدہ کر دیا تھا جبھی تو عین اس وقت واٹس ایپ پر مجھے کامران تھند کا میسج مو صول ہوا ۔۔ سر تھوڑا سا مسکرائیں تاکہ تصویر اچھی بن سکے۔۔
گو پی آ رٹسٹ دو بئی کے گو گل ویلج کے انڈین پویلین میں بہت نمایاں ہے ، وہ بندے کو سامنے بٹھاتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں اس کا پنسل سکیچ بنا کر اسے پیش کر دیتا ہے ۔ جب ہم نے اسے دیکھا وہ ایک عربی نو جوان کی تصویر بنا رہا تھا ، عربی نو جوان کے ساتھ ایک خاتون بھی تھی جس نے عبا ئیہ پہنا ہواتھا اور اس کا چہرہ بھی نقاب میں ڈھکا ہوا تھا ، گو پی کی انگلیوں میں پھنسی پنسل تیزی سے چل رہی تھی ، وہ بار بار سا منے بیٹھے ہو ئے نو جوان کے چہرے کو دیکھتا کبھی پنسل چلاتا اور کبھی ربڑ ۔۔ اس نے پنسل سکیچ بنا نے میں خاصا کم وقت لیا ۔۔ مکمل کر نے کے بعدگوپی نے رقم لینے اور تصویر نو جوان کی ساتھی خاتون کو دینے کے بعد بغیر سر اٹھائے آواز لگائی ۔۔ نیکسٹ (next) اور گو پی کا اگلا شکار میں تھا۔۔
ہوا یوں تھا کہ ہم سبھی دو بئی گو گل ویلج دیکھنے آ ئے تھے اور یہیں گو پی سے ہماری ملاقات ہو ئی۔۔ میں نے بتایا نا کہ گوپی ایک نو جوان کا پنسل سکیچ بنا رہا تھا اور بہت سے لوگ تصویر بنانے کے اس منظر کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے ، کچھ من چلے مو بائل وڈ یو بھی بنا رہے تھے اور کچھ تصاویر لے رہے تھے ۔۔ ہم بھی وہاں جا کھڑے ہو ئے ۔ گوپی کو تصویر بناتے دیکھ کر نو می بولے ۔۔ ابو ۔۔ تصویر بنوائیں گے ؟
نہیں یار خاصی دیر ہو جا ئے گی میں نے نیم رضامندانہ لہجے میں جواب دیا ۔۔ بنوائیں ابو جی تصویر ۔۔ یہ ایک یاد گار تصویر ہو گی ہم سب کے لئے۔ نو می نے فیصلہ سنایا۔ اسی اثنا میں گو پی نے نیکسٹ کہا اور میں گو پی کے سا منے تھا ۔۔
سا منے بٹھا کر گو پی آ رٹسٹ نے مجھے غور سے دیکھا اپنے ہا تھوں سے میرے کندھوں کو متناسب کرتے ہو ئے دھیمے لہجے میں عینک درست کرنے کے لئے کہا ۔ اور پھر پنسل نے اس کی انگلیوں کے اشارے پر رقص شروع کر دیا اور تھوڑی ہی دیر میں سفید کا غذ پر لگا ئی گئی آ ڑھی ترچھی لکیروں میں تصویر کا جنم ہو نے لگا ۔۔ گوپی مجھے دیکھتا،ربڑ سے اضافی لکیریں مٹاتا اور پھر پنسل سے لکیریں بناتا ۔ لکیریں مٹانے اور بنانے کے عمل کے دوران جب وہ مجھے دیکھتا تو ایسے تیز سا نس لیتا جیسے مزدور ہتھوڑا چلاتے ہو ئے سانس لیتے ہیں ، بسا اوقات تو اس کی سانس کی رفتار اتنی تیز اور شدت کی ہو تی کہ اس کے بھنچے دونوں ہو نٹوں سے مو ہوم سے سیٹی بجنے کا احساس بھی ہو تا ۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سفید کا غذ پرپنسل سے لکیریں کھینچنے کی اٹھکیلیاں کر نے کی بجائے بہت سارا وزن اٹھانے کی مشقت کر رہا ہو ۔یقینا اسے تصویر بناتے ہو ئے سا نس لینا مشکل لگ رہا ہو گا۔۔کیوں؟ یہ سوال میرے ذہن میں اٹک گی , تصویر مکمل ہو ئی تو میں نے پو چھا یار یہ تم تصویر بناتے ہو ئے زور زور سے ایسے سا نس کیوں لے رہے تھے جیسے تمہیں سا نس لینے خاصی دشواری محسوس ہو رہی ہو؟ میری ی بات سن کر وہ دھیرے سے مسکرایا اور بو لا، بڑا زور لگتا ہے سر پنسل سے تصویر بنانے میں۔۔
قارئین کرام اگر آپ ساری دنیا ایک ہی چھت تلے دیکھنے کے خواہشمد ہیں تو دو بئی گوگل ویلج کی سیر ضرور کیجئے گا ۔جہاں دنیا
بھر کے نوے کے قریب مختلف ممالک کے پویلین اپنی ثقافت اور کلچر لئے آپ کو خوش آ مدید کہنے کے لئے مو جود ہیں ۔ایک چھت تلے کا جملہ میں نے محاورۃ استعمال کیا ہے، شیخ محمد بن زیڈ روڈ پر واقع دو بئی گو گل ویلج کو آپ کثیر الثقافتی پارک بھی کہہ سکتے ہیں۔ جس کے دامن میں ثقافت، خریداری اور انٹر ٹینمنٹ کا ایک منفرد حسین امتزاج مو جود ہے ۔ یہاں پا کستان سمیت ، انڈیا، ترکی، ایران، مصر سمیت یورپ کے بیشتر مما لک سمیت دنیا بھر نوے سے زیادہ ممالک کے پویلین مو جود ہیں ، جہاں آپ خریداری کر سکتے ہیں اور ثقافت اور کلچر کا مطا لعہ بھی ۔ ایک اندازے کے مطا بق گذشتہ سال 6 ملین سے زائد سیاحوں نے گوگل ویلج کا وزٹ کیا ۔ دنیا بھر کے بعظیم فنکار یہاں اپنا شو پیش کر چکے ہیں جن میں شاہ رخ خان، راحت فتح علی خان اور سمیرا سید جیسے نمایاں نام شا مل ہیں ، کہتے ہیں کہ یہاں بھی انڈین میڈ یا گروپ چھایا ہوا ہے۔ پا کستان کے سبھی فن کاروں کے یہی میڈ یا گروپ میزبان بنتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مبالغہ آرائی ہو اگر یہ سچ ہے تو پا کستان کے ارباب اختیار کو اپنی ثقافت کے حوالے سے پا لیسی وضع کر نے کی ضرورت ہے
گو گل ویلج پہنچنے کے بعد ہم نے دنیا دیکھنے کے سفر کا آ غاز پا کستان پو یلین سے کیا ۔ پا کستانی پو یلین میں مردو خواتین وزیٹر کی خاصی تعداد مو جود تھی ، کپڑوں، لیدر کی جیکٹوں ، ملتانی کھسوں اور ہاتھ سے بنی دستکاری کی دکانوں پر خاصا رش تھا ۔لیکن سب سے زیادہ خریداروں کارش پویلین میں موجود گول گپوں اور دہی بھلوں کی دوکان پر نظر آ یا۔ گھر والوں نے کچھ خریداری کرنا تھی سو بہو بیگم سب کو ساتھ لئے ایک ایک شاپ چیک کرنے میں لگ گئیں اور میں،نعمان، عبد اللہ اور فاطمہ گلوبل ویلج کے درمیان بنی جھیل کنارے جا بیٹھے ، جھیل میں بعض لوگ کشتی رانی سے محظوظ ہو رہے تھے ، جھیل کے پا نی میں گوگل ویلج کی منعکس رنگ برنگ روشنیوں کا منظر دیدنی تھا ۔ تھوڑی ندیر بعد جب اہل خانہ خریداری سے فارغ ہو گئے تب سیاحت کا سفر دو بارہ شروع ہوا ۔ ابو یہ ایران، ہے اور یہ ترکی اور یہ دیکھیں مصر ۔۔ نعمان چلتے چلتے آ گہی کا فرض بھی نبھا رہے تھے ۔ آگے چلے تو ایک پویلین کے آ گے بنے چبوترے نما سٹیج پر ڈرم اور پیانو کی آواز پر چند سیاہ فام نا چتے گاتے اور تھرکتے نظر آ ئے ، پتہ چلا یہ افریقہ کا پویلین ہے ۔ڈرم کے ساتھ پلے بیک میوزک بھی تھا مگر گیت کے بول گو ہمیں تو سمجھ نہیں آ رہے تھے لیکن سٹیج پر موجود فن کاروں کی اچھل کود اور چھلانگیں بتا رہی تھیں کہ گیت معونیت کے لحاظ سے خاصا پر اثر ہے ۔ جبھی تو پرفارم کرنے والے فن کار بڑے جوش اور جذبے سے دوڑ رہے تھے اور قلا بازیاں لگا رہے تھے ۔ سٹیج کے ایک کونے میں کھڑا کلر فل ڈریس میں ملبوس ایک نو جوان پیانو لئے جھوم رہا تھا۔ دو نوجوان ڈرم بجا رہے تھے سٹیج کے درمیان میں مندھرے قد کا ایک مو ٹا سا سیاہ فام ڈنڈا ہا تھ میں لئے عجیب عجیب آوازیں نکا لتے ہو ئے پر فارم کر رہا تھا ۔ لگتا تھا وہ کوئی استقبا لیہ گیت تھا تبھی تو سٹیج پر پر فارم کرنے والا شخص بار بار او، او ، او اور ای ای ای کی آوازیں نکالتے ہو ئے شا ئقین کو سٹیج کے قریب آ نے کے اشارے کر رہا تھا ۔۔ گیت کے بول تو ہمیں سمجھ نہیں آ ئے لیکن ڈرم اور پیانو کی سنگت سے ما حول خوب جم رہا تھا ۔ پویلین کے ااندر گئے تو دیکھا کہ سارے دکاندار بھی سیاہ فام تھے اور خریداروں کی تعداد بھی زیادہ افریقی تھے ، سیلز گرل تو سبھی سیاہ فام خواتین تھیں، موٹی دراز قد اور مضبوط جثے اور لچھے دار الجھے با لوں والی۔۔ عجب سی مہک تھی پویلین کے سارے بازروں میں ۔ پتہ چلا کہ خوشبو اور رنگ گورا کرنے والی مصنوعات سب سے زیادہ یہاں فروخت ہو تی ہیں ۔
اگلا پویلین انڈیا کا تھا جس کے باہر پتلی تماشا ہونے والا تھا ۔۔ گیٹ کے باہر بنے چھوٹے سے بڑے سے طاقچہ نما سٹیج پر رکھی ایک مورتی کے ساتھ ایک نو جوان پجاری بنا بیٹھا ہوا تھا۔ پہلے تومیں سمجھا کہ شا ید یہ ہندؤں کے کسی بھگوان کی آرتی ہے ۔ یہ سوچ کر میں واپس پلٹنے لگا تو نعمان نے بتایا کہ نہیں ابو۔۔ یہاں پتلی تماشہ ہوتا ہے اور ابھی شروع ہو نے والا ہے تھوڑی دیر میں ۔۔
چند ہی لمحے گذرے ہوں گے کہ بیک میوزک پر چلنے والے گانے
اوے تو لونگ وے میں لاچی
تیرے پچھے آ گواچی
پر سٹیج پر رکھی پتلی جسے میں نے بھگوان کی مورتی سمجھا تھا۔۔ نے تھرکنا شروع کر دیا ۔
باقی احوال اگلی قسط میں۔۔