دوبئی میں سکول جانے کے لئے بچوں کو صبح پانچ بجے جا گنا پڑتا ہے ، عبد اللہ، علشبہ اور فاطمہ کا سکول آ دھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے ۔ سکول بس ٹھیک 6.15انہیں لینے کے لئے آتی ہے سات بجے سکول ٹائم ہے ، بچوں کی واپسی با لترتیب ہو تی ہے فاطمہ سوا ایک بجے اور عبداللہ علشبہ سوا تین بجے گھر پہنچتے ہیں ، دو بئی میں ایک دو پا کستانی سکول ہیں مگر زیاد تر والدین اپنے بچوں کی ایجو کیشن کے لئے پرائیویٹ انٹر نیشنل سکولوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں داخلہ مشکل اور پڑھائی خاصی مہنگی ہو تی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں بھی ہمارے ہاں کی طرح سکول بیگ خا صے بھاری ہو تے ہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہاں ہوم ورک اور ٹیوشن نام سے کو ئی بچہ آ شنا نہیں ہو تا۔ویسے تو صبح اٹھنے میں کبھی کبھار سستی ہو جاتی تھی لیکن یہاں دو بئی میں صبح صادق بچوں کے سکول جانے کی تیاری سحر خیزی میں خاصی معاون رہی ۔اسکول جانے کے لئے بچوں کا اتنی صبح اٹھنا، تیار ہو نا اور بھاری سکول بیگ لئے 13 منزل سے لفٹ کے ذریعے سکول بس کے لئے گراؤنڈ فلور تک جانا بہر حال جو ئے شیر لا نے کے مترادف ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات ہے کہ بچوں کو سکول بس تک لے پہچانے اور سکول بس سے لانے کے عمل میں بچوں کے والدین میں سے ایک کا سا تھ ہو نا ضروری ہو تا ہے جو سکول انتظامیہ کی جانب سے بنے کارڈ کو دکھا کر بچوں کو سکول بس عمل کے عملہ کو سپرد کر تا ہے اور کارڈ دکھا کر وصول کر دیتا ہے۔ظا ہر ہے یہ بچوں کی حفاظت کو یقینی بنا نے کا بہترین طر یقہ ہے۔
یہ سفر کی تھکاوٹ تھی یا پھر ایران سے یکجہتی میں رت جگے کا اثر کہ صبح جب نماز کے لئے جاگا تو ایک دم ایسا چکر آ یا کہ لگا سارا کمرہ گھوم کے رہ گیا ۔ چکر اتنا شدید تھا کہ ایک لمحے کو تو سارا منظر ہوا ہو گیا نظر تھی کہ کہیں ٹک ہی نہیں پا رہی تھی شکر یہ ہوا کہ یہ شدید چکر مجھے اس وقت آیا جب میں بستر پرہی تھا اور اٹھنے کا ارادہ کر رہا تھا ۔ اگر یہ چکر مجھے کھڑے ہو ئے آ تا تو میں ضرور گر تا بھی اور چوٹ بھی لگتی ۔ چکر ایک لمحے کا تھا لیکن کہہ سکتے، اس نے میری چو لیں ہلا دیں سر میں درد تو نہیں تھا لیکن لگا جیسے ذہن ما ؤف ہو گیا ہو ۔اس شدید کیفیت میں اٹھنا کیا میرے لئے سر اٹھا نا تک خا صا مشکل تھا سو میں نے اٹھنے کا ارداہ ترک کرتے ہو ئے آنکھیں میچ کر دونوں ہاتھ سر پر رکھے لیٹے رہنے میں عا فیت جانی ۔ تھوڑی دیر بعد حمیرا بچوں کو بس سٹیشن پر چھوڑ کر واپس آ ئی تو مجھے ایسے خلاف معمول لیٹے دیکھ کر خیریت پو چھی تو میں نے اسے چکر بارے بتاٰیا تو اس نے بڑی تشویش کے ساتھ یہ خبر نعمان تک پہنچا ئی اور تھوڑی ہی دیر میں سارا گھر میرے سرہانے پریشان کھڑا تھا۔
برشھا ہا ئیٹس میں آ سٹر(ASTER) فارمیسی کے نام سے ایک کلینک ہے بیٹے نے وہاں کال کی اور ڈا کٹر سے میرے چیک اپ کے لئے اپائٹمنٹ لے لی اس وقت تک گو میری حالت خاصی سنبھل چکی تھی لیکن سر میں ابھی ابھی ہلکے ہلکے ہلکورے محسوس ہو رہے تھے جب ہم کلینک پہنچے تو کئی مریض انتظار میں بیٹھے تھے انتظار گاہ میں سا منے دیواپر لگی LD پر مریضون کی سہو لت کے لئے دیئے گئے ٹوکن کی تفصیلات آ رہی تھیں نعمان نے ریسپشن پر اپنی اپائٹمنٹ کا بتایا اور ٹوکن لیا تھوڑ ی ہی دیر میں ہمارے ٹوکن کی اناؤسمنٹ ہو ئی میں نے دیکھا کہ ہمارے ٹوکن کی تفصیلات بھی LDپر آ رہی تھیں ۔ مجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں ایک نرس نے خوش آ مدید کہتے ہو ئے میری فیملی ہسٹری لی۔ بلڈ پریشر لیا اورشوگر ٹیسٹ کی ۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میرا بائی پاس بھی ہوا ہوا ہے تو انہوں نے لگے ہا تھوں میراECG ٹیسٹ بھی لے لیا۔ سبھی ٹیسٹ تھیک تھے بلڈ پریشر نارمل، شو گر ٹھیک اور ای سی جی گڈ ۔۔ اب چکر کیوں ؟
آسٹر کلینک میں ڈاکٹر پو جا کا تعلق انڈیا سے ہے ان کی گلابی اردو سن کر مجھے لگا جیسے ان کا آ بائی وطن کیرالہ ہے انہوں نے رپورٹ دیکھیں مطمئن انداز میں سر ہلایا اور دوباہ میراBP چیک کرتے ہو ئے بڑے دھیمے لہجے میں پو چھا
چکر تم کو آیا یا کمرہ گھو ما ۔ مطلب جب تمیں چکر آ یا تمہیں کیا لگا تم گھومے یا کمرہ گھو ما ؟
کمرہ گھو ما ۔۔ میں بو لا
میرا جواب سن کر ڈاکٹرنے دو نوں ہاتھوں کی انگلیوں سے میری کنپٹیوں پر دباؤ دیتے ہو ئے سوال کیا۔۔ یہاں درد ہو تا ؟
میرا نہیں سن کر اس نے انگلیاں میری دو نوں آ نکھوں کی ابرووں پر انگلیوں سے دباؤ بڑھاتے ہو ئے پو چھا۔۔ ادھر درد ہو تا ؟
میں نے ایک بار پھر نہیں کی گردان دہرائی ۔۔
اوہ تمہارے تو کان میں انفکشن ہے ۔۔ کب سے ہے یہ انفکشن۔۔ اس نے میرے با ئیں کان کو کھنگا لتے ہو ئے پو چھا ۔ میں نے کہا کہ کبھی کبھار بہتا ہے ۔
میں نے پہلے اسی لئے پو چھا کہ کمرہ گھوما یا تم۔ اگر تم گھومتا تو مطلب BP یا شو گر کا مسئلہ ہو تا لیکن تم نہیں گھو ما کمرہ کھو ما تو اس کی وجہ تم کے کان کی انفکشن ہے۔ اس نے میڈ یسن اپنے کمپیوٹر پر کمپوز کیں اور نسخہ کاپرنٹ نکال کر ہمیں دے دیا ۔ تین دن بعدہم نے ایک بار پھر چیک اپ کرنا تھا۔ تین دن دوائی استعمال کی افاقہ تو ہوا مگر کچھ زیادہ نہیں سو چا نظر بھی چیک کرالی جائے ہو سکتا ہے عینک کا نمبر تبدیل ہو نے والا ہو جس کے سبب یہ چکر آ رہے ہیں ہمیں نظر چیک کرانے کے لئے ہمیں آ سٹر کلینک کی ایک برانچ جو ڈسکوری گارڈن میں واقع تھی وہاں اپنا آ ئی ٹیسٹ بھی کرانے جانے پڑا، وہاں بھی خاتون ڈاکٹر تھیں اور ان کا نام تھا بے نظیر ۔۔تعلق ان کا بھی انڈیا سے تھا
تقریبا دو سال میں نے اپنی نظر ڈاکٹر ارشاد شیخ سے چیک کرائی تھی ڈاکٹر صاحب نے میرے لئے عینک تجویز کی تھی ۔ عینک بھی میں نے ان کے کلینک میں بنے آ پٹیکل سٹور سے بنوائی تھی ۔ مجھے اس وقت بہت فخر محسوس ہوا جب مجھے ڈسکوری گارڈن دو بئی کے آسٹر کلینک کی ڈاکٹر بے نظیر نے بتایا کہ آپ کی عینک بالکل درست ہے اور آپ کو نظر کی عینک کا کو ئی مسئلہ نہیں، آپ کے ڈاکٹر نے صحیح نمبر تجویز کیا ہوا ہے اور عینک کے شیشے بھی بالکل درست اور ٹھیک ہیں یقین جانئیے گا اس وقت مجھے اپنے پا کستان،اپنے لیہ اور اپنے ڈاکٹر شیخ ارشاد پر بہت فخر محسوس ہوا ۔۔ اور مجھے یقین ہو گیا کہ ہم پا کستانی اتنے بھی گئے گذرے نہیں جتنے مشہور ہو چکے ہیں ۔۔
باقی احوال اگلی قسط میں