ارے یار تم شکل سے تو کہیں سے نیپالی نہیں لگتے میں نے اس کے کھلتے قدرے سفید رنگ کی مناسبت سے اپنی رائے دی مگر اس نے شائد میرے اس بے تکے سوال کا کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور خاموشی سے ٹرالی لئے میرے ساتھ چلتا رہا۔
تمہارا نام کیا ہے؟میں نے پو چھا
پروین ،سر میرا نام پروین ہے ۔اس نے قدرے زیر لب مسکراہٹ لئے جواب دیا
ہائیں۔ پروین تو ہمارے ہاں عورتوں کے نام ہو تے ہیں ۔ میں نے اس کی معلومات میں اضافہ کے لئے معلومات شیئر کیں ، مجھے علم ہے سر ، مجھے پہلے بھی بہت سوں نے بو لا۔ بٹ ہمارے نیپال میں پروین بوائے کا نام ہوتا۔ لڑکی کو پروینیو کہتے ۔
مطلب یو لگنے سے پروین میل سے فی میل بن جاتا؟ ہاں سر ایسا ہی بو لا جاتا
دوبئی میں نیپالی مزدور سر فہرست ہیں یہ سارے گلابی اردو بو لتے ، اگر ہم نیپالی زبان کی تاریخ بارے سرچ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ نیپالی زبان کی مدر لینگویج میں سندھی زبان بھی شا مل ہے ۔ دو بئی میں 90 فیصد سے زیادہ ٹیکسی ڈرائیور پا کستانی ہیں، رہے انڈین تو یہ لوگ یو اے ای کے ہر فیلڈ میں ملیں گے، مجھے بہت تلاش کرنے کے با جود دوبئی اور ابو ظہبی میں نہ تواردو اخبار دیکھنے کو ملا اور نہ ہی پا کستانی ایف ایم سننے کو ملنے لگا۔ پتہ چلا کہ یو اے ای میں جتنے اردو ایف ایم ریڈ یو ہیں سبھی انڈین ہیں ۔
پروین کی مدد سے سامان ٹرالی میں لئے جب دو بئی انیٹر نیشنل ایئر پورٹ کے ٹرمینل 2 سے ہم با ہر نکلے تو نعمان، عبد اللہ اور فاطمہ حسن ہمارے منتظر تھے جنگلے سے اس پار عبد اللہ اور فاطمہ نے دبادا ابو دادا ابو کہہ کر ہاتھ ہلاتے ہو ئے ہمیں اپنے ہو نے کا احساس دلایا۔ ان کے اس والہانہ انداز سے مجھے لیہ میں ہو نے والی میری گذشتہ سا لگرہ ڈے یاد آ گیا ہوا یوں تھا کہ سبھی بچے اپریل کی چھٹیوں پر گھر آ ئے ہو ئے تھے ، علشبہ، عبد اللہ، فا طمہ، ہانیہ، زینب ، بیہ اور نوید ان سبھی بچوں کی مو جودگی نے گھر کی ہییت خاصی تبدیل کر کے رکھ دی تھی اور مجھے اپنے مشغلہ کی تکمیل کے لئے کمپیوٹر سمیت بند کمرے میں پناہ لینا پڑی تھی کہ شورو غل اور دھینگا مستی کے اس جارہانہ ماحول میں نہ کچھ لکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی پڑھا میں دروازہ بند کئے کمپیوٹر پر شائد بلیٹن آڈیو ریکارڈنگ میں مصروف تھا کہ طالبان دادا ابو کے پور ے بر گیڈ نے علشبہ کی قیادت میں دھڑام سے دروازہ کھو لا اور مال غنیمت سمجھتے ہو ئے مجھ بے چارے دادا ابو پر ہلہ بول دیا اور مجھے یر غمالی بنا کر۔۔ دادا ابو آئیں نا۔۔ ناناا ابو آئیں نا۔۔کی تکرار کرتے ہو ئے تقریبا کھینچتے ہو ئے ڈرائنگ روم میں لے گئے جہاں سبھی گھر والے برتھ ڈے کیک سر پرائز کے ساتھ مو جود تھے ۔ ہیپی برتھ دا دا ابو کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ تا لیاں بجائیں جب معا ملات سا منے آ ئے تو پتہ یہ چلا کہ آج کا یہ سارا سر پرائز ایونٹ بچوں نے اپنی اپنی پا کٹ منی سے سجا یا ہے ۔
تقریبا پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد ہم گھر پہنچ گئے جہاں حمیرا اور علشبہ جاندار مسکرا ہٹ لئے ہمارے والہانہ استقبال کے لئے مو جود تھیں۔کہا جاتا ہے کہ ہر انسان کی کا میابی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہو تا ہے بلا شبہ نعمان کی کا میابی میں حمیرا کا بڑا کردار ہے ۔ ماننا پڑتا ہے کہ جیسے میرے سپنوں کی تعبیر میں کنیز کے صبر حو صلہ اور وفا کی جاندار کنٹری بیو شن ہے اسی طرح نعمان کی کا میابی میں بھی حمیرا قدم بہ قدم ہے ۔میری دعا ہے کہ اللہ کریم میرے آ نگن کی ان خوبصورت کلیوں کو نظر بد سے بچا ئے ۔آمین
نعمان کا فلیٹ دو بئی کے علاقہ بر شھاہا ئیٹس ((BARSHA HEIGHTSمیں واقع ایک منزلہ عمارت کے تیر ہویں فلور پر ہے ۔نعمان کا آ فس بھی گھر سے چند منٹوں کی مسا فت پر ہے ، بلند با لا عما رتوں میں گھرا بر شھاہا ئیٹس کا یہ پو ش علا قہ دو بئی کے میڈیا سٹی کے پڑوس میں ہے۔ دین تو میرے رب کی ہو تی ہے بلا شبہ وہی نوازتا ہے لیکن زندگی سٹائل اختیار کرنے میں بندہ کو اختیار دیا ہے بندے کو اللہ نے ، جیسے چا ہیں بسر کریں بندہ آزاد ہے۔ نعمان کو بیرون ملک ملازمت کرتے 14/15 سال ہو چکے ہیں، کویت، سعودی عرب اور اب یو اے ای میں۔ اپنی سروس کے دوران انہیں فرانس، سو ئزر لینڈ، قطر، بحرین سمیت بہت سے مما لک جانے کا موقع ملا۔ ایک خو بصورتی جو میں نے اس بندے میں دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ وہ جہاں بھی رہا ، انوائر منٹ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ اچھا گھر، اچھی گاڑی، بچوں کے لئے اچھا سکول۔۔ اور اس سے بڑھ کر اپنی سماجی، معاشرتی ذمہ داریوں کا خوبصورت احساس۔۔مقصد دائرے میں رہ کر ایک خو بصورت زند گی ۔۔اور اس سے بھی آ گے صبح پا کستان کے سبھی فلاحی پروگرام ۔۔نہ کبھی نعمان کا ہاتھ تنگ ہوا اور نہ دل ۔ میرا ماننا ہے جب بندے کو اللہ کے بندوں سے محبت کا سلیقہ آ جا ئے تو خالق اپنی مخلوق سے پیار کرنے والوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا ۔۔ بس ہمیں ہی سلیقہ اور حو صلہ نہیں ہو تا مانگنے کا۔۔
تو ہی ناداں چند کلیوں پہ قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا
چاروں طرف بلند و بالا عمارتوں میں گھرے میرے کمرے کی ونڈو مشرق کی جانب کھلتی ہے۔سر شام ڈھلتا سورج، ستاروں کی جھر مٹ میں نکلتا چا ند، رات میں دو بئی کی جگمگاتی اور جھلملاتی روشنیوں سے لے کر صبح صادق میں آ سمان پر چھائی سحر انگیز سفیدی تک ، دھیرے دھیرے طلوع ہوتا ٹھنڈاا میٹھاسورج، وٹامن ڈی سے بھر پور پورے دن کی دھوپ اور اس سے بھی بڑی بات ہلکورے لیتے اٹھکیلیاں کرتے بادل ، غرض ہر لحظہ قوس و قزح کی طرح ہر لمحے رنگ بدلتا مو سم ، سبھی کچھ تو میری دسترس میں ہے ۔۔ اور اس سے بھی آگے سطح زمین سے 200 فٹ سے زیادہ کی بلندی پردو تین فٹ کی مختصر سی با لکونی میں رکھی کرسی پر بیٹھ کر دنیاکے سبھی بر اعظموں کے سبھی رنگوں ، سبھی نسلوں کے بھانت بھانت کی بو لیاں بو لتے تقریبا ایک ہی جیسے مسائل سے نبرد آزما مختلف لوگوں کو دیکھنے اور پڑھنے کا تو اپنا ہی لطف ہے ۔
باقی احوال اگلی قسط میں۔۔۔
ماشااللہ ، اللہ تعالی آپکو اور آپکے خاندان کو اسی طرح خوش و خرم رکھے ، یہ موجودہ دور میں ایک خوش کن صورتحال ہے کہ آپکے بچے نفسا نفسی کے دور میں بزرگوں کی قدر کرتے ہیں اور والدین کی قدر کرتے ہیں۔۔اللہ تعالی سب کو سلامت رکھے ، باقی تحریر تو آپکی ہمیشہ ہی قابل تعریف ہوتی ہیں ، اس بار جو سفری معلومات ہمیں فراہم کیں ہیں ، وہ ہم جیسے نکمے طالب علموں کے لئیے قیمتی سرمایہ ہے ۔۔۔ بہت شکریہ ، واپسی پر آپ سے سفرنامہ کی کتاب لکھوانی پڑے گی ۔۔ . شکریہ