گھر سے چلے تو شام کے پانچ بجنے کو تھے ۔ابھی چوک اعظم کراس نہیں کیا تھا کہ دھندراستہ کھوٹا کر نے لگی۔ فیضان کی ڈرائیونگ بڑھتی ہو ئی دھند سے خاصی متا ثر ہو رہی تھی، وہ صبح سے کہہ رہا تھا کہ دن میں ہی گھر سے نکلنا ہے مگر ہمیں نکلتے نکلتے خاصی دیر ہو گئی تھی اتنی دیر کہ دھند کی دبیز تہہ بتدریج گہری ہو رہی تھی ۔ ویسے اس بار دسمبر کمال کے موسم میں گذرا ، سرد ہوائیں، سخت ٹھٹھرا دینے والا جاڑا اور دھند ہی دھند، کہا جا رہا ہے کہ اس بار لیہ میں سردی اور دھند نے پچاس سالہ ریکارڈ توڑا ہے
نعمان کا اصرار تھا کہ دو بئی آجاؤ ۔ میری بھی دو ہفتے کی چھٹی ہے اور بچوں کی بھی۔ ابو جی آپ لوگ بھی آ جا ئیں مزہ آ جا ئے گا چھٹیوں کا۔ میرے اقرار پر چند دنوں میں ہی بیگم، عائشہ اور میرا ویزا آ گیا اور اب ہم سب دو بئی جانے کے لئے ملتان جا رہے تھے کہ ہماری فلائٹ 26 دسمبر صبح گیارہ بجے کی تھی ملتان انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے۔ پہلے پروگرام بنا کہ 26 کی صبح لیہ سے،ملتان کے لئے نکلا جائے کہ فلائٹ تو گیارہ بجے کی ہے آرام سے ملتان پہنچا جا سکتا ہے مگر میجر نے کہا نہیں ایک دن پہلے سہہ پہر کو چلتے ہیں رات ملتان سد کے گھر رہیں گے اور صبح نا شتہ کے بعد ایئر پورٹ چلیں گے سو اسی پرو گرام کے تحت ملتان عازم سفر ہو ئے۔ لیہ سے ملتان سفر کے دوران یاد رکھنے والی چیز اللہ دین کے شکر والے نان تھے جنہیں ہم نے چلتی گاڑی میں بڑے چٹخارے لے لے کر کھایا ۔چوک اعظم کینال ریسٹ ہاؤس کے سا منے بائی پاس روڈ پر بننے والے نئے اللہ دین ریسٹورنٹ کی یہ سو غات بہر حال قابل ذکر ہے
27 دسمبر کی صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب گھر سے نکلے تو دھندبھی بے پناہ تھی اور سورج کو بھی مکمل گرہن لگا ہوا تھا ۔ایئر پورٹ پر پہنچے تو پتہ چلا کہ فلائٹ لیٹ ہے ۔ کتنی ؟ جواب ملا ابھی دو بئی سے ہی نہیں چلی ساڑھے بارہ بجے متوقع ہے ۔آ سا نی سے بورڈنگ کرا نے کے بعد اب انتظار تھا فلائٹ انتظار کا ، جس نے شیڈول کے مطابق دو بئی انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے پا کستان کے لئے ا ڑان ہی نہیں بھری تھی ۔ سہہ پہر کے تقریبا ایک ڈیڑھ بجے ہوں گے جب غیر سر کاری ذرائع سے پتہ چلا کہ دو بئی سے ملتان آ نے والی پرواز سوا پانچ بجے تک ملتان پہنچے گی اور ساڑھے چھ بجے ملتان سے روانہ ہو گی ، جب تک پرواز کنفرم ہو ئی ہم اس وقت تک مبلغ گیارہ سو روپے سے ایک کا فی، دو چا ئے اور چار سینڈ وچز، ایک پیکٹ مو نگ پھلی اور ایک پیکٹ نمکو کی عیاشی کر چکے تھے۔ ویسے تو آج کل کے ہمارے سماج میں مہنگائی کو ئی ایسا مو ضوع نہیں جس پر کچھ نیا لکھا جا سکے ، ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب مہنگائی بجٹ کے سیزن کی بریکنگ نیوز ہوا کرتی تھی اب تو ہر لحظہ اور ہر لمحہ کی نیوز ہی مہنگائی ہے ، لوگ صبح جا گتے ہیں تو کل کے گذرے اچھے وقت میں ہو نے والی بری تبدیلی پر آہیں بھررہے ہو تے ہیںاور بجٹ کا تو کو ئی سیزن رہا ہی نہیں۔۔ اب جون جو لائی کا تو تذ کرہ ہے ہی نہیں۔۔ جب چا ہتے ہیں بجٹ کا سٹال سجا لیتے ہیں حکمران۔۔ کہ عوام کی خد مت صرف جون میں ہی کیوں ؟ ہر لحظہ اور ہر لمحے کیوں نہیں۔۔
تین گھنٹے کی فلائی دو بئی کی فلائٹ نے جب دو بئی انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر لینڈ کیا تو پا کستان میں رات کے سوا نو جب کہ مقامی وقت کے مطا بق سوا دس ہوا چا ہتے تھے ۔امیگریشن کا مر حلہ میرے لئے ہمیشہ دشوار رہا ہے ۔سعودی عرب وزٹ ویزے پر جا نے اتفاق ہوا تو ریاض میں مجھے گھنٹوں امیگریشن کا ؤ نٹر پر انتظار کر نا پڑا کہ میری با یو میٹرک نہیں ہو پا رہی تھی اس بار بھی کچھ ایسی ہی مشکل میرے آ ڑے آ ئی، یہاں مسئلہ با یو میٹرک کا نہیں مشین سے آ نکھیں ملا نے کا تھا ۔ کا ؤنٹر پر بیٹھی سا نو لی سی سمارٹ لڑکی نے مجھے عینک اتار کر کا ؤنٹر کے کو نے پر رکھی چھوٹی سے کالی مشین کی سکرین کی طرف دیکھنے کا اشارہ کیا۔
میں نے اپنی دانست میں سکینر پر بڑی بھر پور نظر ڈالی امید تھی کہ سرخرو ہو جا ؤں گا۔مگر امیگریشن والی نے کندھے اچکاتے نفی میں سر ہلاتے انگلیوں سے آنکھیں قدرے کھول کر ایک بار پھر سکینر پرنظر ڈالنے کا اشارہ دیا اور یہ عمل تین چار دہرانے کے بعد آخرہم کا میاب ہو ہی گئے۔
دو بئی، ابو ظہبی،شارجہ ،راس الخیمہ۔ العجمان۔ ام القوین اور فو جیرہ پر مشتمل یو اے ای نام سے تشکیل پانے والے خلیجی ریاستوں کا یہ اتحاد 2 دسمبر 1971میں تشکیل پایا ۔پہلے اس فیڈریشن میں چھ خلیجی ریاستیں شا مل تھیں، راس الخیمہ10 فروری 1972 میں یو اے ای وفاق کا حصہ بنا ۔کہا جا سکتا ہے کہ یو اے ای فیڈریشن کی بنیاد رکھنے میں دو بئی کے حکمران شیخ اشد بن سعید المکتوم اور ابو ظہبی کے سلطان شیخ بن سلطان النہیان کا کلیدی کردار ہے۔ دو بئی اور ابو ظہبی کے انہی دونوں حکمرانوں کی دعوت پر باقی خلیجی ریاستیں اس نئے اتحاد میں شا مل ہو ئیں ۔ دو بئی انٹر نیشنل ایئر پورٹ کا شمار دنیا کی صف اول کی پانچ بڑی ایئر پورٹس میں ہو تا ہے ۔دوبئی کو آپ خلیج کی سات ریا ستوں پر مشتمل یو نا ئیٹڈ عرب امارات کا دروازہ کہہ سکتے ہیں ۔ اور ہم اس وقت یو ای اے کے اس دروازے پر دستک دے چکے تھے اور دنیا میں سب سے زیادہ بلند و با لا عمارتوں والا یہ خوبصورت شہر ہمارا منتظر۔یہ الگ بات کہ میں پہلی بار دو بئی آیا ہوں مگر گذشتہ دو برسوں سے یہ شہر میرے جذ بات میں رچ بس سا گیا ہے وہ اس لئے کہ میرے بچے اسی شہر میں رہتے ہیں الشبہ، فا طمہ اور خاص طور پر میری محبت میری زندگی اور میرا دوست۔۔ عبد اللہ حسن
باقی احوال اگلی قسط میں ۔۔