میرے ارد گرد وہ تمام کردار ناچ رہے تھے جن سے میں نے اپنے۔قلم کی دکانداری چمکا رکھی تھی ۔جانے کیا ہوا کہ ہمیشہ کے چپ سادھنے والے آج بموجب یوم حساب مجھے نرغے میں لیے کھڑے تھے۔کچھ رو اور چلا رہے تھے کسی کے ہونٹوں پہ زہر خند مسکراہٹ ۔وہ سب میرے سامنے نوحہ و شکوہ کناں تھے ۔میں نے بے اختیار اپنی لہو فگار انگلیوں سے کانوں کو ڈھانپ لیا ۔ان کی عریانیت دکھانے والا قلم آج ان سے خوفزدہ تھا۔
کاغذ کا آئینہ میز پہ پڑا تھا مگر چٹخ چکا تھا اس پہ لکیروں کا جال مکڑی کے جالے کی مانند پھیلا کئی عکس منعکس کر رہا تھا جو جھکے مجھے ڈرانے میں مشغول تھے ۔اچانک ضمیر نے انصاف کے ہتھوڑے سے میرے سامنے بیٹھتے ہوئے میز بجایا ۔اس کی تحکم بھری آرڈر آرڈر نے ہر سو سکوت طاری کر دیا ۔میں نے اپنی آنکھوں میں منجمند خوف کو کاغذ کے آئینے میں اترتے دیکھا۔مجھ پہ فرد جرم عائد کی جا رہی تھی۔بے شمار انگلیاں میری طرف اٹھی ہوئیں تھیں ۔جج نے اشارہ کیا کہ فرد جرم سنائی جائے ۔شاید میری بےبسی کو محسوس کر لیا گیا تھا۔میں نے امداد طلب نگاہوں سے قلم کی طرف دیکھا جس نے کمال بے پرواہی اور نخوت سے منھ پھیر لیا۔مجھ پہ لگائے گئے الزام رقص کرنے لگے ۔جن کی فہرست بہت طویل تھی میں نے جھوٹ کی کردار کشی کرنے کے چکر میں معاشرے کے کرداروں کو عریاں کیا تھا سب کا متفقہ اعتراض کہ میں کیوں ان کے اندر جھانکتا ہوں ؟میں نے کیونکر ان کے جسموں میں موجود ناسوروں اور زخموں کو قلم کی نوک سے کریدا ۔اور انکے احساسات و جذبات کو جو درپردہ تھے معاشرے کے تماش بینوں کی محفل میں طوائف کی مانندلا کھڑا کیا اور اس کے پاؤں میں درد کے گھنگھرو باندھ دیے۔میرا قلم مداوا نہیں کر سکتا تھا تو ان کی زخم کشائی کا حق بھی نہ رکھتا تھا۔کیوں بھوک افلاس ذیادتی اور معاشرتی نارسائیوں کو عیاں کرتا گیا اور سسکتی انسانیت کے زخموں پر تسکین کے پھاہے رکھنے کے بجائے ان کے کھرنڈ چھیلتا رہا۔
جب علاج نہیں تھا تو تشخیص اور آگاہی کا درد دے کر تماشہ کیوں بناتا گیا ۔سب کردار مجھ سے خفا اور عریانیت پہ شرمندہ تھے ۔ضمیر نے اچٹتی نگاہ مجھ پہ ڈالی ۔میرے پاس اپنی صفائی میں کہنے کو کچھ نہیں میں نے سر جھکا لیا۔