دنیا میں ہر چیز کے بعد کسی بھی دوسری چیز کی توقع کی جاسکتی ہے غربت کے بعد دولت کی صحت کے بعد بیماری کی بیماری کے بعد صحت کی حاکمیت محکومیت اور محکومیت کے بعد حاکمیت کی بھی مگر زندگی کے بعد موت ہے اور یہ حقیقت ہے اس حقیقت سے کوئی بھی ذی روح انکارنھیں کر سکتا کچھ لوگوں پر جب یہ حقیقت مکمل ہوتی ہے تو سامنے دیکھتے سنتے کانوں سے بھی انسان یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کاش ایسا نہ ہوا ہو
کچھ ایسی ہی کیفیت گزشتہ شب کی مرزا عثمان کی وفات کی خبر کا سن کر ہوا ہے مرزا عثمان ایک با صلاحیت نوجوان تھا قدرت کی طرف سے ملنے والی صلاحیتوں کا مثبت انداز میں استعمال میں لانے کی بھرپور استعداد اس نوجوان میں تھی میرا مرزا عثمان کے ساتھ کوئی تعارف تعلق واسطہ نہ تھاکچھ عرصہ قبل مجھے ایک نا معلوم نمبر سے کال آئی اور کال کرنے والے نوجوان نے اپنا تعارف عثمان مرزا کے نام سے کرایا اور کہا کہ وہ مجھے ایک یتیم سٹوڈنٹس کی فیس میں معاونت لینے کے لئے ملنا چاہتا ہے میں نے اسے کہا کہ میں لیہ ایک پیشی پر آیا ہوا ہوں شام کو چوک اعظم میں ہونگا تو اس نے کہا کہ میں لیہ میں ہی ہوں اور ہم لوگ لیہ کے ہی رہائشی ہیں میں نے اسے ملک اسحاق ایڈووکیٹ کے چیمبرز میں بلوالیا جہاں میرے ساتھ مرزا عرفان ایڈووکیٹ میاں یسین آزاد اور زاہد عمران بھی میرے ساتھ تھے کچھ ہی دیر کے بعدعثمان مرزا آگیا اور اس نے اپنے ساتھ آنے والے سٹودنٹ کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اس نے داخلہ لینا ہے قصہ مختصر وہ ابتدائی ملاقات تھی میں نے فیس بک پر پوسٹ لگائی
کچھ ہی دیر میں استاد محترم انجم صحرائی صاحب کی کال آئی میں نے عثمان مرزا کو ان کے پاس بھیجا قصہ مختصر انجم صحرائی صاحب اور چوک اعظم کے دوستوں کی معاونت سے اس نوجوان کی فیس جمع ہو گی وہ نوجوان اب بھی یونیورسٹی میں زیر تعلیم میں اس دور میں جب افراتفری اور خود پرستی کا دور ہے میں کسی دوسرے کی خاطر سوچنا کسی دوسرے کے پاس جانا یقینی طور پر بڑے دل گردے کا کام ہے بعد آزاں عثمان مرزا کیساتھ ایک تعلق بن گیا وہ جب بھی ملتا اسکی گفتگو اسکی گفتگو کا مرکز محور عام آدمی پسماندہ معاشرے کے مسائل ہی ہوتے عثمان مرزا ایک با عزم نوجوان تھا ڈی ایچ کیو میں متعدد بار بلڈ کی ضرورت پڑی تو لیہ میں عثمان مرزا ہی اسکا ارینج کر کے دیتا
عثمان مرزا بلاشبہ ایک نو جوان نھیں ایک تحریک تھا چوک اعظم میں معذور بچوں کے سکول کے سلسلہ میں روز نامہ پاکستان کے تعلیمی ایڈیشن میں آرٹیکل لکھا تو عثمان مرزا نے کال کی اور کہا کہ لیہ میں سپیشل ایجوکیشن سکول کا پرنسپل میرا دوست ہے میں نے اس سے بات کی ہے آپ لیہ آجائیں وہیں اس کیساتھ ملاقات کراتا ہوں آپکی اور چوک اعظم میں سپیشل ایجوکیشن کا سکول کھلوانے میں آپکی معاونت کرئے گا میں لیہ گیا وہیں ان پرنسپل صاحب جنکا تعلق کوٹ ادو سے تھا مگر اب انکا نام بھول گیا ہو سے میری ملاقات کرائی کافی معلومات شئیر کی وقت گزر گیا ہے
بلا مبالغہ کسی بھی نوجوان کی جوانی میں موت اسکے والدین دوست احباب اور معاشرے کے لئے انتہائی گہرا صدمہ ہوتی ہے عثمان مرزا کی موت کی خبر بھی ایسی خبر تھی کہ دل اور اعصاب کہہ رہے تھے کہ یہ خبر جھوٹ ہو کفن میں لپٹا نوجوان عثمان مرزا نظر آرہا تھا میں موت کی حقیقت کو جہاں جھٹلایا نہیں جا سکتا وہیں عثمان مرزا کی موت جس کے جنازہ میں ہر آنکھ اشک بار تھی جنازے میں میری طرح بہت سارے لوگ اس کے خاندان اور عزیزواقارب کے بارے جانتے بھی نہیں تھے مگر ان کا تعلق عثمان مرزا سے تھا اور عثمان مرزا کیساتھ ان لوگوں کا رشتہ انسانیت کا تھا عثمان انسانیت کی بات کرتا تھا اور اسی بات کے سبب انسانوں کا ایک جم غفیر عثمان کے جنازے کو کندھا دینے اور اسکی تہجیزو تکفین میں شرکت کے لئے امڈ آیا تھا
موت ایک حقیقت ہے اورعثمان مرزا اسی حقیقت کو پا گیا سپرد خاک ہوا مگر عثمان مرزا ان ان گنت ایسے لوگوں گھروں جن کے لئے وہ کوشاں رہتا ان کے دلوں انکی دعاووں میں کسی کے جسم میں خون کسی طالب علم کے لئے علم کی روشنی بن کر معاشرے میں زندہ رہے گا اسکی یادیں اسکی باتیں اسکے چاہنے والوں والوں عزیزو اقارب اور خاندان کے لئے تا زندگی قیمتی سرمایہ ہونگی دور حاضر میں مختلف سیاسی مذہبی لسانی عصبی جماعتوں میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کرنے والے نوجوانوں کے لئے عثمان مرزا کی ایک مثبت مثال ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو انسانیت کے لئے صرف کریں اور مرنے کے بعد بھی انکا عمل صالح ان کے لئے صدقہ جاریہ ہونگے ۔۔۔۔۔ اللہ رب العزت عثمان مرزا کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔۔۔ آمین