عبادت کا لفظ’’ عبد ‘‘سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں پرستش اور بندگی کے ہیں۔ اصطلاحاً اس کے معنی وہ مذہبی ارکان ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے اختیار کیے جائیں ۔عبادات کی دو اقسام ہیں۔ توقیفی عبادات اور غیر توقیفی عبادات۔ توقیفی عبادات وہ ہے جن کے کرنے کا طریقہ قرآن و سنت کی روشنی میں بتا دیا گیا اور اب قیامت تک اس میں تبدیلی ممکن نہیں مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ جبکہ غیر توقیفی عبادات وہ ہیں جن میں رد و بدل ممکن ہے جیسے تبلیغ دین، امر بالمعروف نہی ان المنکر وغیرہ۔
اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کر کے اس دنیا میں بھیجا اور جہاں اسی کی جسمانی ضرورت کے لیے اشیا ء ارض کو مسخر کردیا وہیں اس کی روحانی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس کو اپنی عبادت کا پابند بنایا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا‘‘۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ : حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سوار تھا۔ آپ نے فرمایا ’’ اے معاذ! کیا تم جانتے ہو اللہ تعالی کا حق اس کے بندوں پر کیا ہے اور بندوں کا حق اللہ تعالی پر کیا ہے ؟ میں نے کہا ’’اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالی کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ تعالی پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اسے عذاب نہ دے‘‘۔ ( صحیح بخاری و مسلم)
تقویٰ کے معنی بچنا کے ہیں۔ تقویٰ سے مراد پرہیزگاری ہے، یعنی تمام عبادات کی بنیاد ہی تقویٰ ہے اور یہی انبیا علیہ السلام کا وصف ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ تقویٰ یہا ں ہے، تقوی یہاں ہے، آپ صلی علیہ وسلم نے نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے 3بار یہ لفظ دھرایا۔یعنی انسان کا تقویٰ ظاہری نہیں بلکہ اس کے اندر دل میں موجود ہوتا ہے۔
قرآن میں کئی سو آیات میں تقویٰ کی اہمیت پر زور دیا گیا اور اسے انسان کے لیے لازم قرار دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اے لوگو! بلا شبہ ہم نے تم کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر ہم نے تم کو مختلف قبیلوں و قوموں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ با عزت وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ یقیناًاللہ سب کچھ جاننے والا اور با خبر ہے۔‘‘
حجۃ الوداع کے موقع پر آپ علیہ السلام نے تقویٰ کو انسانی فضیلت کا معیار قرار دیتے ہوئے فرمایا ’’کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کالے پر یا کسی کالے کو گورے پر کوئی برتری نہیں مگر تقویٰ کے سبب‘‘۔
دین اسلام ایک فطری دین ہے اس لیے یہ انسان کے ہر ایسے کام کر شروع میں ہی رد کر دیتا ہے جو نمود و نمائش اور ریاکاری کی غرض یا نیت سے کیا جائے ۔ااخلاص عبادات میں روح کی حیثیت رکھتا ہے اسی لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اللہ کی عبادت کرو، صرف اس کے بندے ہو کر، ہاں خالص اللہ ہی کی بندگی ہے‘‘۔ (القرآن )
بخاری شریف کی پہلی حدیث مبارکہ بلا شبہ عبادات میں اخلاص کا بنیادی سبق دیتی ہے ۔ حدیث مبارکہ ہے :’’بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔
نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر تمام امور زندگی میں اخلاص کی بنیاد پر عبادات کے قبول و رد ہونے کی کسوٹی ہے اسی لیے تمام نیک اعمال کے لیے انسان کا مطلوب و مقصود اخلاص نیت ہونا چاہیے ۔ ایسے اعمال جن کی بنیاد میں اخلاص کا پانی نہ ہو خواہ کتنے ہی عظیم الشان ہوں اللہ رب العزت کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں ۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ’’اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم)
خشیت کے معنی ڈر اور خوف کے ہیں اورخشیت الٰہی سے مراد اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس سے حیا کی وجہ سے گناہ اور اپنی خواہشات سے رک جانا اور اس کی رحمتوں کے طلب گار ہونا۔ابو حفص رحمہ اللہ علیہ نے خشیت کی تشریح یوں فرمائی ہے ’’ قلب مومن میں خشیت وہ شمع ہے جس کی روشنی کی بدولت وہ خیروشر میں فرق کر سکتا ہے۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ بے شک جو لوگ اپنے رب کی خشیت سے مضطرب اور لرزاں رہتے ہیں اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ اپنے ربّ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں ) دیتے ہیں جتنا وہ دے سکتے ہیں اور (اس کے باوجود) ان کے دل خائف رہتے ہیں کہ وہ اپنے ربّ کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی لوگ بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں اور وہی اس میں آگے نکل جانے والے ہیں‘‘۔
انسانی زندگی میں خشیت الٰہی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہی وہ صفت ہے جو اسے تنہائی میں بھی گناہ سے باز رکھتی ہے۔ اللہ رب العزت کے سامنا کرنے اور دیکھنے کا خوف مومن کی زندگی میں اس قدر شامل ہوتا ہے کہ وہ ہر ہر لمحہ خوفِ خدا میں گزارتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سلف الصالحین بہترین طریقے سے عمل کرنیاور اپنی دنیاوی خواہشات سے رک جانے کے باوجود خشیت الہی سے کانپتے تھے ۔
اللہ تعالیٰ ایک انسان کو اس مقام پر دیکھنا چاہتا ہے جو اشرف المخلوقات کے معنی و مفہوم پر پورا اترتا ہو اسی لیے اس نے عبادات میں تقویٰ، اخلاص اور خشیت الٰہی کو بنیادی اہمیت دے کر مسلمان کو ان کے مطابق زندگی گزارنے کا پابند بنایا اور یہاں آقا علیہ السلام کی حدیث مبارکہ نے یہ بات سمجھنے میں مزید آسانی فرما دی۔ ارشاد نبوی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے کہ ’’ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے‘‘۔تو اس دنیاوی قید میں رہتے ہوئے اگر ہم اپنی زندگیاں تقوی اخلاص اور خشیت الٰہی کی بنیاد پر گزاریں گے تو یقیناًاخروی کامیابی بھی ہمارے ہی لیے ہے ۔