وہ دو قبریں بہت عجیب تھیں ۔قبرستان کے کونے میں الگ مگر بظاہر جڑی ہوئیں جیسے ہم نوالہ و ہم پیالہ ۔بوڑھا گورکن ان کی صفائی ستھرائی کا بڑا خیال رکھتا تھا ۔ان دو قبروں سے بہت سی کہانیاں جڑی تھیں ۔جو لوگوں کی خود ساختہ تھیں اصل راز تو اس بوڑھے گورکن کے دل میں پوشیدہ تھا جو ان کی حقیقت کا امین تھا اسی لیے وہ خاص خیال کرتا کہ کوئی اس طرف نہ جائے ۔ان دونوں قبروں کے اردگرد ہلکی ہلکی خورد رو گھاس اگی ہوئی تھی گویا کسی نے تصویر کے گرد فریم لگا دیا ہو ۔سرہانے ایک گلاب کہ پودا جس میں لگے گلاب ہوا سے لہلہا کر خوشبو بکھیرتے رہتے۔ سنا تھا رات گئے وہاں سے ہنسی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور اکثر گلاب کی پتیاں بکھری دکھائی دیتیں کبھی کبھی تو تازہ گلاب بھی پڑا ہوتا ۔
وہ ایک آوارہ گرد تھا جسے کہانیوں کی تلاش بے چین رکھتی ان کہی داستانوں کو کھوجنا اس کا جنون تھا ۔رات گئے تک آوارہ گردی اس کا شوق ۔وہ اپنے ایک دوست کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے آیا تھا مغرب ہوگئی تھی اور سورج اپنا سفر پورا کر کے تھکا ماندہ بستر پہ خوابیدہ ہونے کا آرزو مند تھا۔جیسے ہی فاتحہ پڑھ کر وہ پلٹا اس کی نظر بوڑھے گورکن پہ پڑی جو کونے والی قبر پہ گرے پتوں کو سمیٹ کر صاف کرتے ہوئے کچھ بڑبڑا رہا تھا اچٹتے سے الفاظ اس کے کانوں میں پڑے ۔اچھا اب چلتا ہوں آپ دونوں بھی آرام کریں کل نئے گلاب اور موتیے کے پودے لا کر لگاؤں گا ۔آوارہ گرد کے کان کھڑے ہوگئے اس نے گورکن پہ نظر ڈالی جس کے چہرے کے نقوش شام کے سایوں نے مدہم کر دیے تھے۔پھر وہ پلٹا اور ان قبروں کی طرف بڑھا جن کے سراہنے گلاب مہک رہے تھے کتنی دیر محویت سے وہ ان جڑی قبروں کو دیکھتا رہا ۔اچانک ہلکا سا قہقہہ اسے چونکا گیا اس نے خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھا نگاہ کچھ نہ پاکر پلٹ آئی پھر کھلکھلانے کی آواز سن کر توجہ مرکوز کی تو ایک پھول دائیں قبر پہ آگرا ۔خوف کی جگہ تجسس نے لے لی ۔ہلکی ہنسی سسکی میں بدل گئی ۔وہ اور آگے بڑھا ۔کون ہے اس نے پکارا ۔اتنے میں کسی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا وہ یکلخت مڑا تو گورکن کو مقابل پایا ۔یہاں کیا کر رہے ہو بیٹا کس کی قبر کی تلاش ہے؟ کک کچھ نہیں وہ ہکلایا یہاں سے ہنسنے رونے کی آواز آ رہی تھی اور یہ پھول ۔ ۔ وہ خود کو سنبھال چکا تھا ۔آؤ میرے۔ساتھ یہ کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے جینے دو ان کو اپنی زندگی۔بوڑھے گورکن نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما۔۔ ۔ زندگی ؟؟ وہ حیران ہوا بابا یہاں تو سوائے موت کے سکوت کے کچھ نہیں ۔بیٹا یہ شہر خاموشاں ہے مگر اس کے سب باسی ہماری دنیا سے الگ ایک زندہ نگری میں ہیں زمان و مکان سے آزاد ۔بس یہ ہماری دنیا کی مداخلت برداشت نہیں کرتے جیسے ہم ان کی نہیں کرتے۔آؤ چلو۔بابا یہ کیا اسرار ہے؟ مجھے جاننا ہے میں ایک لکھاری ہوں وہ بضد ہوا ۔اچھا بابا کچھ سوچتے ہوئے اسے قریبی کوٹھری میں لے گیا ۔بیٹھو بیٹا ۔کیا نام ہے تمہارا ؟ قاسم ۔قاسم کہتے ہیں مجھے۔وہ چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے بولا ۔تو قاسم بیٹا سنو لمبی کہانی ہے ۔یہ کہانی کسی کی زبانی نہیں بلکہ ان دونوں میں سے ایک کی زبانی ہے اس لیے شک کی گنجائش نہیں ۔کوئی تیس برس پہلے کی بات ہے تب میں جوان ہوا کرتا تھا میرا باپ جدی پشتی گورکن تھا ۔مگر مجھے اس کام سے وحشت ہوتی تھی میں پڑھنا چاہتا تھا ۔سو بارہ جماعتیں پاس کیں تو بابا اس دنیا سے چل بسا ۔کوئی زریعہ معاش نہ تھا بہن بھائیوں اور ماں کی ذمہ داری کیا کرتا مجبورا یہی پیشہ اپنا لیا ۔ کچھ عرصے بعد میں پڑھائی بھول گیا اب یہی قبرستان میری روزی کا ٹھکانہ تھا ۔ایک دن ابھی روشنی مکمل طور پہ نہ پھیلی تھی کہ ایک نقاب پوش بی بی کو کچھ دن پہلے کی تازہ قبر کے سرہانے کھڑا پایا پہلے اس نے فاتحہ پڑھی پھر دو زانو ہو کر بیٹھ گئی پھولوں کی پتیاں بکھیرتے ہوئے وہ جانے کیا کیا باتیں کیے۔جارہی تھی خود کلامی پھر ہنسی جیسے اسکو اس کی باتوں کا جواب مل رہا ہو ۔میں حیرانی سے اسے دیکھتا رہا۔قریبا ایک گھنٹے۔کے بعد وہ گھڑی دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اچھا چلتی ہوں پھر آؤنگی وہ مسکرائی ۔اور اللہ حافظ کہہ کے پلٹی ۔میں بھی لوٹ آیا ۔اب تو یہ روز کا معمول بن گیا وہ آتی ایک گھنٹہ قبر پہ گزارتی اور خوب باتیں کرتی اور واپس لوٹ جاتی قبر کے سرہانے لگے گلاب کی خشک ٹہنیاں سبز ہو گئیں تھیں اور ننھی ننھی کلیاں نمودار ہونے لگیں حیرت تو اس بات پر تھی کہ اسے میں نے۔کبھی پانی نہ دیا تھا مگر وہ پودا شاداب تھا ۔میں بھی اس خاتون کے معمول کا عادی ہوگیا تھا ۔آج تک اس سے بات نہ ہوئی تھی نہ کبھی قریب سے۔دیکھا ۔ایک عرصہ بیت گیا لگ بھگ پانچ سال ۔وہ ایک گرم صبح تھی آج جب وہ خاک نشین سے بات کر کے۔لوٹی تو اس کے قدم ڈگمگا رہے۔تھے اور آنکھیں خلاف معمول بھیگی ہوئی تھیں اتنے عرصے میں پہلی بار میں نے اسے روتے دیکھا ۔یکایک دروازے۔کے پاس وہ چکرا کر زمین پہ بیٹھ گئی ۔میں فورا مدد کو آگے۔بڑھا آج پہلی بار انہیں قریب سے۔دیکھ رہا تھا پچاس پچپن کے لگ بھگ ۔خوبصورت سادہ نقوش درمیانہ قد بلاشبہ وہ کافی پروقار دکھائی دیں ۔میں نے ان کو سنبھالا دینے کو ہاتھ بڑھایا ۔بہت شکریہ بیٹا وہ میرا ہاتھ تھام کر کھڑی ہو گئیں مجھے چکر آگیا تھا ان کا گلوگیر لہجہ بھاری تھا۔آپ آئیں میں پانی لاتا ہوں میں نے انکو چارپائی کی طرف لےآیا ۔پانی پی کر وہ بغور مجھے دیکھنے لگیں جیسے کچھ کہنا چاہتی ہوں ۔آپ کچھ کہنا چاہتیں؟ میں نے ان کے نگاہوں کےسوال پڑھتےہوئےاستسفار کیا؟ ہاں بیٹا انہوں نے چشمےکےشیشے۔صاف کرتےہوئےآہ بھری ۔میں اس شہر سے جارہی ہوں ان کا خیال رکھنا جانا میری مجبوری ہے اور ان کے ساتھ کی زمین تمہارے پاس میری امانت ہے یہ اسکی رقم رکھ لو ۔انہوں نے رقم میرے آگے رکھی ۔آپ ان کی۔ ۔ ۔ میرا جملہ مکمل نہ ہو پایا ۔ہاں میں انکی محرم راز ہمدم ہمساز محبت الفت ہم نشین جو بھی کہہ لو ۔ہم دنیا میں مل نہ پائے ۔بدقسمتی سے جب ہم ملے تو اپنےاپنے رشتوں کی زنجیروں میں پابند سلاسل تھے ۔ اور ان رشتوں کو توڑنا ہمارے نزدیک جرم تھا ۔ہم نے روح کا رشتہ جوڑ لیا اور ہمیشیگی کا رشتہ عالم بالا میں نبھانے کا عہد کیا ۔ہم بددیانت ہونا نہیں چاہتے تھے ہم اس محبت کو جو آسمان سے اترا صحیفہ تھی آلودہ نہیں کر سکتے تھے ۔ہماری مراد کی آغوش میں عقیدت بھری بس ایک ملاقات تھی جب انہوں نے محبت سے میرے ہاتھ تھام کر چوم کر آنکھوں سے۔لگائے تھے بس وہ لمس وہ پل حیات آفریں ہوگئے ۔برسوں کی رفاقت اور وہ پل بس یہی سرمایہ حیات تھا ۔ہم پھر کبھی نہ ملے کیونکہ ہم بد دیانت نہیں تھے۔۔انکو میری جنت عزیز تھی اور مجھے انکی ۔ فون پہ باتیں کرنا دکھ سکھ بانٹنا بس یہی رابطہ تھا ۔ہم گویا دور رہ کر بھی قرب سے آشنا تھے۔پھر وقت کی آندھی نے ان کو چھین۔لیا اور وہ یہاں چلے آئے ۔اب وہ زمان ومکان۔کی قید سے آزاد تھے ۔سو اب میں آگے بڑھی اور ان کے پاس آنے لگی ۔میری فیملی شفٹ۔ہو رہی میں تنہا یہاں نہیں رہ سکتی مگر لوٹنا یہیں ہے ۔وہ ہانپ سی گئیں ۔اور پھر ایک طویل عرصے۔بعد وہ اپنی امانت لینے آ پہنچیں وصیت کے مطابق انکو ان کے پہلو میں سلا دیا گیا۔ اب وہ دونوں شہر خاموشاں کے محلے دار پڑوسی بن گئے زندگی مکمل ہو گئی۔گورکن۔خاموش ہوا اور اپنے آنسو پونچھنے لگا۔قاسم حیرت سے خاموش تھا ۔تکمیل محبت نے اسے گنگ کر دیا تھا۔