سول ڈیفنس کا مطلب کسی بھی ملک، ریاست،سلطنت کے شہریوں کو غیر معمولی حالات میں اپنا دفاع کرنے کی تربیت دینا،اپنے اردگردلوگوں کی مدد کرنا ، اسکی ترغیب دینا،انسانی زندگیوں کو بچانا سول ڈیفنس کہلاتا ہے ۔ ہر سال یکم مارچ کو عالمی سطح پر سول ڈیفنس کے حوالے سے ایک دن منایا جاتا ہے جس میں علاقائی ، شہری اور ملکی سطح پر سیمینار منعقد ہوتے ہیں ، عوام کو آگاہی کے لئیے ریلیاں نکالی جاتی ہیں ،بہرحال 1990 میں ایک عالمی تنظیم کی تجویز پر یہ دن منانے کا فیصلہ ہوا تاکہ دنیا بھر کی توجہ اس اہم ترین مسئلہ کی طرف مبذول کرائی جائے، سول ڈیفنس کی اس تنظیم میں کوئی پچاس سے زائد ممالک اور 16کے قریب ریاستیں شامل ہیں ،ویسے تو قیام پاکستان کے وقت "اے آر پی” کے نام سے ایک ادارہ کام کرتا تھا جو کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے شروع ہوا تھا ، 1952میں سول ڈیفنس پاکستان کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس کے مقاصد میں ہنگامی صورتحال سے کس طرح نمٹا جائے، کسی ایمرجینسی ، آگ لگنے، ایکسیڈنٹ، سیلاب ، قحط، و دیگر عوامل میں خود کو کس طرح محفوظ رکھنا ہے اور اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں کی کس طرح مدد کرنا ہے اس دوران ملکی سطح پر کچھ قومی و بین الاقوامی ادارے بھی قائم کئیے گئے جن کا مقصد عوام میں شہری دفاع کے شعور کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ رضاکار تیار کرنا ہے ۔ اس کے علاوہ دوران جنگ ،غیر معمولی حالات و واقعات ، کے وقت قوم کی قوت، قابلئیت، کو بہتر بنانا ، کوشش کرنا، ایسے اقدامات کرنا کہ علاقے میں بیرونی و اندرونی حملے کی صورت میں دشمن اپنے مقاصد پورے نہ کر سکے ، اور ایسے اقدامات حالت زمانہ جنگ، زمانہ امن، اور بعد از جنگ بھی ہو سکتے ہیں اور ایسے اقدامات بھی شامل ہورتے ہیں کہ قدرتی یا انسان کی پیدا کردہ آفات کی صورت میں ہوتے ہیں ۔ موجودہ دور میں تمام آفات و واقعات ، حادثات میں آئے روز اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ،کہتے ہیں کہ شروع شروع میں اس ادارے نے ہر چھوٹے بڑے شہرمیں سول ڈیفنس کی تربیت دی اور تقریبا ہر گھر سے نوجوان افراد کو بم ڈسپوزل ، فرسٹ ایڈ،روڈ ایکسیڈنٹ، قحط، زلزلے، سیلاب، وبائی امراض ، طوفان اور آگ لگنے یا عمارتوں کے منہدم ہونے سے انسانی جانوں کے بچاو کی ٹریننگ دی جاتی تھی ، تعلیمی اداروں میں سول ڈیفنس کے متعلق مضامین پڑھائے جاتے تھے اور ٹریننگ پروگرام بھی ہوتے تھے ، 1971تک سول ڈیفنس سکولوں ، کالجز، یونیورسٹیز میں باقاعدہ عملی مظاہرہ کیا کرتی تھی حتی کہ رائفل چلانے کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ لیکن ناجانے پھر ایسا کیا ہوا کہ حکومت نے تعلیمی اداروں میں یہ مضامین اور ٹریننگ سیشن کو ختم کردیا، جبکہ صوبائی سطح پر باقاعدہ یہ ایک ادارہ قائم ہے جس کا موجودہ دنوں میں کام تبدیل ہوگیا ہے ، اب یہ ادارہ غیرقانونی پٹرول پمپ، ڈیزل و گیس ایجینسیاں،منی پٹرول یونٹس ، بڑی عمارتوں ، پلازوں ،اور دکانوں سے باقاعدہ منتھلیوں کی وصولی تک محدود ہو گیا ہے ، نوٹس بھجوانا اور خواہ مخواہ تنگ کرنا معمول میں شامل ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ سول ڈیفنس ادارہ کو ان دکانداروں کو پہلے باقائدہ ٹریننگ دی جانی چاہئیے، نوجوانوں کو سول ڈیفنس کے رضا کار بنا کر ٹریننگ دے کر معاشرہ میں آگاہی پھیلانی چاہئیے لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ افراتفری کی حالت میں سول ڈیفنس سے جانکاری نہ ہونے سے نقصان زیادہ ہوجاتاہے، جہاں دشمنوں کے تعلیمی اداروں کے پے درپے وار بھی ارباب اختیار کی آنکھیں نہ کھول سکا ، سیکورٹی اداروں کی جانب سے ان اداروں کے بزرگ سیکورٹی گارڈز کو ٹریننگ دی جاتی رہی لیکن نوجوانوں کو اپنی حفاظت یا ملکی دفاع کے لئیے اپنی صلاحیتوں کومنوانے کا کوئی جامع پروگرام اور ٹریننگ نہ دی جا سکی، ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اس ادارے کے قیام کے بعد پاکستان کا ہر شہری ذاتی، علاقائی، شہری،اور ملکی و قومی دفاعی صلاھیت کا حامل ہوتا ، کئی ممالک میں ایسا ہو رہا ہے کہ حکومت نوجوانوں کو باقاعدہ عسکری ٹریننگ تک دلو ا دیتی ہے تاکہ جنگ یا غیر معمولی حالات میں یہ نوجوان خدمات سرانجام دے سکیں ، موجودہ حالات میں جہاں جنگ کی صورتحال ہے سوشل میڈیا پر نوجوان بھرپور انداز مٰیں مصروف ہیں ، سول ڈیفنس کی ٹریننگ کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے، تربیت یافتہ رضاکاروں کی کمی ہے وہاں ابتدائی طبی امداد و آلات کا بھی فقدان ہے۔کہ ان ٹریننگ کے حامل افراد دفاع کے فرائض انجام دینے کے قابل ہوتے، یہ جنگ فوجیوںیا سپاہیوں کی نہیں ہے پورے پاکستان کی ہے،اس لئیے سکولوں ، کالجز، یونیورسٹیز سمیت نوجوانوں کے لئیے ٹریننگ کے انتظامات ہونے چاہئیے تاکہ پاکستان کے نوجوان حقیقی معنوں میں غیر معمولی حالات و حادثات میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکے۔جنگی حالات کے بعد بھی لیہ میں سول ڈیفنس کی افادیت و اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس علاقے کو آندھی ، طوفان ، روڈ حادثات اور خصوصا سیلاب جیسی آفت کا سامنا کرنا پرتا ہے ایسے مواقع پر سول ڈیفنس فورس اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔شہری دفاع کی تربیت ہر ایک پاکستانی کے لئیے لازمی ہونی چائیے تاکہ وہ کسی قسم کی ہنگامی حالات میں بہتر انداز میں نبرد آزما ہو سکیں ، اس کے لئیے حکومت ، میڈیا، سرکاری و پرائیوٹ ادارے، سیاسی سماجی نمائندگان ، محکمہ تعلیم ، پولیس، این جی اوز، محکمہ صحت، سوشل ویلفئیر ، سرمایہ دار، دکاندار حضرات، تاجر و دیگر تنظیموں کو آگے آنا چاہئیے اور کردار ادا کرنا چاہئیے کیونکہ ہم سب مل کر ، کوشش اور جامع حکمت عملی سے مضبوط شہری دفاعی نظام بنا سکتے ہیں ۔ سول ڈیفنس کی تاریخ میں کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ لوگوں نے ہنگامی حالات میں نہ صرف لوگوں کی جانیں بچائیں بلکہ متوقع زیادہ حادثات و نقصانات کو روکنے میں کامیاب ہوئے ۔ مشہور کتاب "زاویہ’میں اشفاق احمد لکھتے ہیں ” کہ ایک بار ڈیرے پر بابا جی سی پوچھا کہ انسان کو پناہ کہاں ملتی ہے، تو فرمانے لگے کہ "ماں کی آغوش میں” اگر وہاں نہ ملے تو والدین کی دعاوں میں ۔۔ اگر وہ بھی بدقسمتی سے نہ ملے تو پھر علم میں ۔ وہ علم ایسا جس میں ااپ کی ذات ، روح اور دوسروں کو فائدہ پہنچے اور وہ خدا کی مخلوق کے لئیے زحمت نہ ہو۔۔۔
whatsup: 03038229933
Mail: kamranlyh@gmail.com