پروفیسر شفقت بزدار سرائیکی زبان کے عمدہ شاعر ہیں۔وہ سرائیکی وسیب کے ترجمان بھی ہیں اور اس کی پہچان بھی۔وہ یاروں کے یار اور خوش مزاج انسان ہیں۔خوش طبعی کا پہلو ان میں خلقی ہے۔وہ لطیفوں اور جگتوں سے محافل کو کشت زعفران بنا دیتے ہیں۔ان کی باتوں میں طنز اور مزاح گھل مل جاتے ہیں تو خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ طبقہ مرداں اور حلقہ نسواں میں ان کی مقبولیت اور قبولیت یکساں رہی ہے۔ان کی شخصیت کا ایک اور نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ذاتی دکھ اور کرب کو دل میں پنہاں رکھتے ہیں۔اسی لیے ان کو کبھی افسردہ خاطر نہیں دیکھا گیا۔وہ ذاتی نمود و نمائش سے دور اور حسن ذات کے حضور خوش رہتے ہیں۔
ان کا تازہ شعری مجموعہ "جیون جوگ جیون روگ” کے تناظر میں بات کی جائے تو اس میں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے۔وہ کسی عربی یا عجمی محبوب کی بجائے تل وطنی محبوب کے حسن و جمال کے پرستار ہیں۔وہ ہجر اور محبوب کی بے رخی سے زیادہ اس کی مسکان،مخمور نگاہ اور خوش خرامی پر فریفتہ ہیں۔وہ محبوب کی دراز قامتی میں فتنہ قیامت دیکھتے ہیں اور اس کے بوسہ کو بے ساختہ ثواب سمجھتے ہیں۔حسن کو دیکھ کر ان پر والہانہ سرمستی اور سرشاری طاری ہو جاتی ہے۔سید عابد عابد کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالروف شیخ کہتے تھے کہ وہ اس قدر حسن پرست تھے کہ اگر آج بھی کوئی لڑکی رنگ برنگا آنچل اوڑھے ان کی قبر سے گزرے تو وہ اس نظارہ جمال کو جنت نگاہ بنانے کے لیے قبر سے باہر آ جائیں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ شفقت بزدار بھی جمال پسند اور جمال دوست شاعر ہیں۔وہ حسن کے متنوع ناز و ادا کے فریفتہ بھی ہیں اور قتیل بھی۔ان کی شاعری کا مؤثر حوالہ رومانس ہے۔
ان کے ہاں ساقی اور شراب کے ساتھ ساتھ زاہد کی منافقت کا پردہ چاک کرنے والے اشعار روایت کی پاس داری کرتے ہوئے بھی مل جائیں گے لیکن ان کی غزل کا قابل تحسین موضوع سماج کے غاضب حکمرانوں اور تاج برطانیہ کی میراث میں چھوڑے ہوئے جابر گماشتوں کے ساتھ ساتھ عوامی مفادات کے خلاف اشرافیہ اور انتظامیہ کی ملی بھگت پر مبنی اشعار ہیں جو ان کی عوام دوستی اور وڈیرہ شاہی کے خلاف جائز نفرت کا اظہاریہ ہے۔انھوں نے سادہ عوام کی بنیادی ضروریات زندگی سے محرومی کے دردناک مناظر کی تصویرکشی کی ہے۔وہ جابر سلطان کے آگے کلمہ حق کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔وہ مملکت خدا داد میں روا رکھے گئے ناروا مظالم سے بڑی بےباکی سے نفرت انگیز ردعمل کا اظہار کرتے ہیں جس میں لعن طعن کا پہلو بھی شامل ہے۔ان کے نزدیک عوام کے پاس کوئی ایسی زنجیر عدل بھی نہیں ہے جہاں وہ مظالم کے خلاف کوئی استغاثہ کر سکیں کیوں کہ عدل کو اندھا اور قانون کو بے بس کر دیا گیا ہے۔وہ طبقاتی تضادات کا بیان ایک حساس دل شاعر کے طور پر کرتے ہیں۔طبقاتی تضادات سے باخبر لیکن ترقی پسند تحریک کے منشور سے بچ کر انھوں نے محنت کشوں کے استحصال اور مروجہ نظام کے منافقانہ ہتھکنڈوں کو بے باکی سے بیان کیا ہے۔چوں کہ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں رہے اسی لیے وہ فکری محاذ پر براہ راست استحصالی قوتوں سے مزاحمت کی بجائے تاریخ کے سورماؤں کو یاد کرتے ہیں۔ان کو اس بات کا بھی دکھ ہے کہ بےروزگار اور استحصال زدہ عوام اپنے جائز حقوق سے نا آشنا اور طبقاتی جدوجہد سے عاری ہے۔انھوں نے طبقہ اشرفیہ کے ساتھ مذہبی پیشوائیت کی باریک اور گہری باہمی مفادات پر مبنی مکروہ سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کے دہرے معیار کو ہدف تنقید بنایا ہے۔وہ ان کی دروغ گوئی اور ذاتی مفادات کے لیے مذہب کے استعمال کو شاطرانہ چال تصور کرتے ہیں۔ان کے نزدیک کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام کو محض رسمی عبادات تک محدود کر دیا گیا ہے۔انسانی کردار کے ترفع اور انسانی معاشرہ کی تشکیل و تعمیر کا تصور اسلامی ترجیحات سے ختم کر دیا گیا ہے۔
شفقت بزدار کو اسلامی تاریخ اور تہذیبی شخصیات سے جذباتی وابستگی ہے۔وہ گرونانک اور گوتم سے اپنا تعلق استوار کرنے کی بجائے بغدادی اور اجمیری ہونے پر فخر کرتے ہیں۔اس کی وجہ معدوم ہوتی ہوئی اخلاقی اقدار ہیں جن کا ماخذ عہد گذشتہ اور تہذیب و شائستگی کے پاسبان رفتگاں تھے۔اس ضمن میں انھوں نے اہل بیت سے اپنی عقیدت کا اظہار بھی کیا ہے۔جابر سلطنت کے خلاف ان کی بہادری،شجاعت اور مزاحمت کو قابل تقلید سمجھتے ہوئے سراہا ہے۔
شفقت بزدار پاپولر اور بازاری ادب کو ادب عالیہ سے کم تر سمجھتے ہوئے رد کرتے ہیں۔ان کے نزدیک شاعری عطیہ خداوندی ہے۔اس کے تشکیلی عناصر میں تخیل،جذبہ،احساس اور فکر شامل ہے۔قوت مشاہدہ سے فکر میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوتی ہے۔شفقت بزدار کی غزل وسیب کی محرومیوں کی عکاس ہے۔انھوں نے تلمیحات، علامات اور ضرب الامثال سے غزل کو مزین کیا ہے۔ان کے ہاں انتخاب الفاظ اور ان میں مؤثر ترتیب و تنظیم سے ایک جادوئی اثر پیدا ہوا ہے۔انھوں نے کچھ مانوس اجنبی الفاظ کو حسن کارانہ انداز میں بیان کرتے ہوئے شاعری کی لغت میں اضافہ کیا ہے۔وہ انگریزی الفاظ کو بھی اس خوب صورتی سے لاتے ہیں کہ وہ شعر میں اجنبی محسوس نہیں ہوتے۔یعنی انھوں نے الفاظ و تراکیب کو غزل میں نگینے کی طرح جڑ دیا ہے۔گویا وہ مرصع ساز شاعر ہیں۔ان کے شعر میں حرفی تکرار اور اندرونی قوافی سے صوتی آہنگ اور غنائی طرز احساس کانوں میں رس گھولتا ہوا در دل پر لطیف دستک دیتا ہے۔زبان و بیان کے حوالے سے شفقت بزدار بڑے شاعر ہیں جن کی شاعری میں داخلی اور خارجی متنوع موضوعات کا قابل تحسین ذخیرہ موجود ہے۔
میں آخر میں ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ میں ان کے تازہ شعری مجموعے کی تقریب رونمائی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔