زیرِنظر شعری مجموعہ زندگی کے متنوع پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔اس میں حسن و عشق کے موضوعات بھی ہیں اورمونجھ ، وچھوڑے کی کیفیات بھی۔اس میں طنز بھی موجود ہے اور ناصحانہ انداز فکر بھی۔یہ شاعری وسیب کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور تل وطنی ثقافت کی گود میں پروان چڑھتی ہے۔مقامی رسم و رواج ،دکھ سکھ تھل دمان کی بُکھ تس ایسے موضوعات اس مجموعے میں تخلیقی سطح پر اظہار پاتے ہیں۔
یہ شاعری کہیں تھل کے شہر بدر جوگی کا دکھ بیان کرتی ہے تو کہیں دمان کی چھیکڑی دھاں بن کر ظاہر ہوتی ہے۔شفقت بز دار کی شاعری میں حسن وعشق ہجر و فراق اور روہی ،تھل اور دمان کے دکھوں سمیت بیشتر موضوعات طنزیہ روپ دھار لیتے ہیں۔ ان کے ہاں طنز جب تخلیقی حربے میں ڈھل کر سامنے آتی ہے تو مختلف موضوعات اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔اس مقام پر طنز اپنے مروجہ معانی سے آگے قدم بڑھاتی دکھائی دیتی ہے۔شفقت کے ہاں طنز شیخ اور ناصح کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی، ادبی ،تہذیبی اور دیگر متنوع رویوں کو زیر بحث لاتی ہے۔
شیخ و ناصح کی بے عملی اور قول فعل کے تضاد کو بیشتر شعرا نے طنز کا نشانہ بنایا ہے شفقت بزدار کے ہاں بھی اس روایت کی پاس داری ملتی ہے دیکھے!
متھے ٹیکنْ دا ناں نماز تاں نئیں
شیخ جی ٹِک نماز پڑھنی ہے
میڈٖے موضعے دا مولوی صاحب
کہیں نیامت کوں ڈٖیکھ کے ٹُردے
کسی بھی قوم کا سیاسی نظام اس قوم کی اخلاقی و تہذیبی قدروں پر اثر انداز ہوتا ہے۔یہی سیاسی نظام زندگی کے مختلف رویوں سمیت عدل و انصاف کی سمت نمائی بھی کرتا ہے۔بد قسمتی سے ہمارے سیاسی نظام نے مثبت رویوں کی نسبت زیادہ تر منفی رویوں کو پروان چڑھایا ہے۔ شفقت بز دار نے انھی منفی رویوں کو طنز کا نشانہ بنایا ہے
جتھاں پَھردا ہے غریبیں کوں وٹھیندا آندے
چنگٖیں چوکھیں کوں اُو جرمانہ چھوڑیندا ویندے
مفاد پرستی اور مطلب براری کے رویے ہمارے سماج کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔تمام انسانی اقدار اور رشتے ناتے اندر سے کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں۔
کوئی اپنْا ہے یا بیگانہ چھوڑیندا ویندے
جیڑھا پیندا ویندے میخانہ چھوڑیندا ویندے
سماجی اور اخلاقی طور پر ہمارے معاشرے کا فرد مختلف مسائل کے نر غے میں ہے۔اپنے وجود کو بر قرار رکھنے کے لیے وہ تذبذب کا شکار ہے ضروری کو غیر ضروری اور غیر ضروری کو ضروری امر گردانتا ہے۔اسی کشمکش کی دھند میں اسے کوئی منظر واضح دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے ذہن میں مختلف واہمے جنم لیتے ہیں۔واہمہ ذات کا ہو یا کائنات کا مختلف سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ کون سا سوال کتنا اہم ہے اور کتنا غیر اہم یہیں کہیں انسان پھنسا ہوا ہے۔بہر حال اہم ترین معاملہ انسان کے وجود کا اثبات ہے اور اہم ترین مسئلا احترامِ انسانیت ہے۔ لیکن یہاں اس حل طلب مسئلے کو مجرمانہ طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ہم انسان اور انسانیت سے محبت کی بنیادی قدر سے محروم ہوتے جارہے ہیں
ڈٖیندا ہے ساہ سُکا کرائیں ساڈٖے سلام دا جواب
چُمدا ودا ہے پارسا پِیریں دے پیر دوستو
کسی بھی معاشرے کی اخلاقی اقدار متعین کرنے میں اشرافیہ کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔جب اشرافیہ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو جائے، سماج میں اپنا اعتبار کھو دے تو اس کے منفی اثرات پورے سماج پر مرتب ہوتے ہیں۔
سماجی جبر ہے اشراف گنڈھ کپ ہن
وسیب اچ کھیر دھوتیں کول ڈٖردے ہیں
ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور ادیب آئینہ گر۔جب آئینہ گراپنی تخلیق سے مخلص نہ ہو تو تخلیق سماج کی درست شکل دکھانے سے قاصر رہتی ہے۔ہمارا ادیب ریاکاری کا شکار ہو چکا ہے اس لیے اس کی تخلیق اس کے لیے دلی تسکین کا سبب نہیں بنتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ محض منافقت اور ریاکاری کی بنیاد پر خود کو زندہ رکھنا چاہتا ہے۔ شفقت بزدار نے مذکورہ رویے پر یوں طنز کی ہے۔
’’صُندکے‘‘ اَدب دی کرن آبیاری
’’صدف‘‘ سوچ والے پسیلے پسیلے
ریا دے تمغے سجا کے وی مطمئن کائینی
جو منہ لُکیندے ودن راکھویں ادیب میڈٖے
شفقت کے نزدیک ان دانشوروں کی نسبت وسیبی عام لوگ اپنی زبان و تقافت سے زیادہ مخلص ہیں۔ یہ نام نہاد دانش ور اپنی تہذیب سے اتنا مخلص نہیں جتنا خود کو ظاہر کرتے ہیں۔
وسیب باجھوں سرائیکی نال کون مخلص
منافقت والی اجرکیں دے مفاد کیا کیا
وقت اور سماج ہمیشہ تغیر کا شکار رہتے ہیں۔ماضی اپنے اندر خاص رومانس رکھتا ہے۔سماج کی یہ تبدیلی جہاں بہت سارے مثبت رویے ساتھ لاتی ہے وہاں کچھ منفی رویے بھی در آتے ہیں۔ شفقت بزدار انھی منفی رویوں پر طنز کرتے نظر آتے ہیں۔
سلانٹی چپس چُر مُر چاکلیٹاں
چنوں دے بیگ وچ چُوری تاں کائنی
یہاں ’’ چُوری‘‘ کا لفظ ماضی کی تہذیب کا پورا رنگ رس اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ بات صرف ناقص خوراک کی نہیں ہم اپنی نئی نسل کو غیر شعوری طور پر ماضی کی روایات سے محروم کرتے جارہے ہیں جس کے نتائج کسی صورت میں مثبت نہیں نکلیں گے۔ہمیں چاہیے کہ نئی نسل کو اپنی شناخت قائم رکھتے ہوئے مستقبل کے سہانے خواب دکھائیں۔
شاعر یا ادیب اپنی تہذیب و ثقافت سے الگ نہیں ہو سکتا تہذیب و ثقافت قوموں کی شناخت ہوا کرتی ہے شفقت بزدار کی شاعری میں اپنی دھرتی کی خوش بو اور اپنی ثقافت کی بو باس پورے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ نمایاں ہے۔
کھسہ لموچڑی ہس لاچا تھلوچڑی ہس
چولا ابھوچڑی ہس مونڈھے تے شال رکھدے
مقتدر طبقہ ہمیشہ طاقت کے بل بوتے پر مقامی ثقافتوں کو کمزور کرتا ہے انھیں نیچا دکھاتا ہے۔لوگوں کو احساس کمتری کا شکار کرتا ہے جب وہ اپنے لیے ماحول سازگار بنا لیتا ہے تو غیر محسوس انداز میں مقامی ثقافتوں کے سینے میں نہ صرف اپنی مخصوص شناخت کا خنجر گاڑ دیتا ہے بلکہ مقامی ثقافت کی رگوں میں اپنے مفادات انجیکٹ کر دیتا ہے۔نوآبادیات یا کالونیل ازم کی صورت میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔شفقت بزدار کی شاعری طنزیہ لب و لہجے میں یہ دکھ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
اوڈٖو ڈٖاڈھا جو ہا مخلوق ہے ڈٖردی رہ گئی
ایڈٖو سونے رنگی تہذیب اجٖڑدی رہ گئی
شفقت بزدار کی شاعری میں وسیب کا دکھ پورے پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔یہی دکھ مقامی آدمی کا دکھ ہے جس کا ہر سطح پر استحصال کیا گیا ہے۔
اجتماعی سنجٖانْ گٖل گٖئی اے
اجٖ او پولی دی پانْ گٖل گٖئی اے
پِٹ ودا رِیلو رِیل پَٹکی کوں
جیڑھی پگٖ دا ہا مانْ گٖل گٖئی ہے
اسلوب پر بات کریں تو شفقت بز دار نے جہاں ترک شدہ ٹھیٹھ سرائیکی زبان کے لفظ استعمال کیے ہیں وہیں مختلف زبانوں کے لفظ بھی استعمال میں لائے ہیں۔ ان کی شاعری میں منفرد تشبیہات و استعارات کے ساتھ ساتھ مختلف صنائع بدائع کو بھی برتا گیا ہے۔چند صنائع دیکھیے
صنعت تلمیع دیکھیے جس میں مختلف زبانوں کے لفظ لائے گئے ہیں
جاناں ہے جلوہ فگن جُھم ہر طرف دل ہے میڈٖا
دل دا ہدف چوڈٖی دا چن، چن دا ہدف دل ہے میڈٖا
٭٭٭
ایہا غلطی ہے آئی لو یو میں آکھیا ہا
ولا آئی ہیٹ یو سرکار آکھی گٖئے
٭٭٭
صنعت تکرار:
توبہ توبہ مراقبے دے وچ
پارسا اوں دو ڈٖہدا بٖیٹھا ہا
صنعت تکرار مع الوسائط:
محفل سجا کے ونج ڈٖکھا دل کو رلا کے ونج ڈٖکھا
خنجر بکف سر کار دے سِر صف بہ صف دل ہے میڈٖا
صنعت تلمیح:
جے جبر دی دھرتی تے مسیح بھیج نئیں سنگدا
مریم دے ننگے سر لو ردائیں وی نہ آون
٭٭٭
عاشقو روح تاں راکھ نئیں تھیندی
تَل کے موسیٰ دا طُور پی چھوڑو
شفقت بزدار کی اپنے سماج اور وسیب پر گہری نظر ہے۔وہ جزیات کی حد تک وسیبی علامتوں کو استعمال میں لاتے ہیں۔سرائیکی روز مرہ محاورے کا صحت کے ساتھ استعمال ان کی زبان دانی کی دلیل ہے۔وہ محض شاعر کے طور پر خود کو سامنے نہیں لاتے بلکہ ایک سرائیکی دانش ور کی حیثیت سے بھی اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔
(29 دسمبر 2024 کو ہینڈ آوٹ کے زیرِ اہتمام پریس کلب لیہ میں منعقد ہونے والی تقریب میں پیش کیا گیا)