اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ سیاستدانوں، سرکاری افسران نے اسمگلنگ کی مارکیٹیں بنا رکھی ہیں۔
سپریم کورٹ میں سرکاری افسروں اور وزراء کی لگژری گاڑیوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیئرمین ایف بی آر عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری طور پر ضبط گاڑیاں افسروں نے آپس میں بانٹ لی ہیں، ایف بی آر کے تمام افسروں سے لگژری گاڑیاں واپس لی جائیں، نیب گاڑیوں کی واپسی کے معاملات کی تحقیقات کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں لوکل گاڑیوں کی انڈسٹری اسمگلنگ کیوجہ سے بیٹھ گئی، حیات آباد سے راولپنڈی تک سب کھلے عام ہورہا ہے، بلیو ایریا سمیت ملک بھر میں گاڑیوں کی اسمگلنگ کا مال فروخت ہوتا ہے، کھلے عام پنڈی میں باڑہ مارکیٹ بنی ہوئی ہے، ایف بی آر نے کیا ایکشن لیا، میں کہیں جا کر چھاپہ ماروں تو اعتراض آ جائے گا، کئی سیاستدانوں، سرکاری افسران نے بھی اسمگلنگ کی مارکیٹیں بنا رکھی ہیں، ملک کو ایسے نہیں چلایا جاسکتا، مشکوک گاڑیوں کے استعمال سے متعلق پالیسی کس نے بنائی۔
چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 2006 میں یہ پالیسی بنائی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم ای سی سی کے ارکان کو بلا لیں۔ چیئرمین ایف بی ار نے کہا کہ ای سی سی کو سمری دوبارہ جائزے کے لیے بھجوا دیتے ہیں،
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ بلوچستان کے وزراء سے 49 لگژری گاڑیاں ریکور کر لیں، 7 گاڑیاں وزراء سے ریکور کرنی باقی ہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ رات 12 بجے تک گاڑیاں واپس لیں، گاڑیاں واپس نہ کرنیوالوں کو روزانہ ایک لاکھ روپے جرمانہ کریں، ایک ہفتہ بعد جرمانہ 2 لاکھ ہو جائے گا
سپریم کورٹ نے بلٹ پروف گاڑی واپس نہ کرنے پر مولانا فضل الرحمان، عبدالغفور حیدری اور کامران مائیکل کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کل طلب کر لیا۔ تاہم سماعت ملتوی ہونے سے قبل تینوں شخصیات نے گاڑیاں واپس کردیں جس پر سپریم کورٹ نے طلبی کا نوٹس واپس لے لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان قوم کا پیسہ کیوں استعمال کر رہے ہیں، وہ اپنی سیکورٹی کا خود بندوبست کیوں نہیں کرتے۔ مولانا فضل الرحمن کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان پر کئی حملے ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ موت کا دن متعین ہے، حملوں سے فرق نہیں پڑتا۔
عدالت نے چیرمین ایف بی آر سے مشکوک گاڑیاں ڈمپ کرنے سے متعلق بیان حلفی طلب کرتے ہوئے سماعت 11 جون تک ملتوی کردی۔