سمجھ نہیں آ رہا آ ئی ایم ایف سے ملنے والے 6 ارب ڈالر پر دھمال ڈالیں یا ماتم ۔ حکومت کہہ رہی ہے بچت ہو گئی وگرنہ خطرہ سرخ لائن سے کراس کرنے والاتھا اب کچھ سہارا ملاہے معیشت کو تو سنبھل جا ئیں گے ۔ جب کہ سراج الحق سمیت سبھی اپوزیشن پارٹیاں دہائی دے رہی ہیں کہ سرکار نے 6 ارب ڈالر کے بدلے پورا ملک گروی رکھ دیا ،بقو ل اپوزیشن حکم حاکم مرگ مفاجات کے تحت ایک ہزار ارب روپے کے نئے ٹیکس لگیں گے تو غریب عوام کے کڑاکے نکل جائیں گے ۔ دیانتدار سے بات کی جائے تو پا کستانی عوام کے لئے نہ تو آ ئی ایف نیا ہے اور نہ ہی ٹیکس اور مہنگا ئی ۔ وہ اس لئے کہ پڑھے لکھوں کے ہر دور میں عوام آ ئی ایم ایف آ شنا رہے ہیں اور رہی بات مہنگائی اور ٹیکس کی تو عوام کو پتہ ہے کہ اقتداریوں کا سارا بوجھ کمہار کے گدھے کی طرح انہوں نے ہی اٹھا نا ہے ۔
گو تحریک پاکستان کی باگ دوڑ قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسے اعلی تعلیم یا فتہ رہنماءوں کے ہا تھوں میں تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی قیادت میں چلنے والی قوم کی اکثریت ان پڑھوں پر مشتمل تھی جو جد ید تعلیم کے اسلوب سے تو واقف نہیں تھی لیکن اسلام ، آزادی ، نظریہ ، خلوص ، وفا اور قربانی جیسے جذ بوں سے ضرور آ شنا تھی شا ید یہی وجہ ہے کہ تقسیم ہند کے وقت ہو نے والی دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کے دوران آزاد وطن کی خواہش لئے متوالوں کا آزادی کے دشمنوں نے تو لہو ضرور بہا یا لیکن شا ید ایسے بہت کم واقعات ہوں گے کہ ان لٹے پٹے اور مال و اسباب چھوڑ کر آ نے والے وطن پرستوں کے درمیان روٹی کپڑا اور مکان کے حصول پر تو تکار ہو ئی ہو یا ہاتھا ہائی اور قتل و غارت گری ۔
کہتے ہیں کہ ایوب خان کے دور میں پا کستان نے جرمنی کو قرضہ دیا اور یہ بھی سنا کہ پی آ ئی اے نے کویت سمیت دنیائے عرب کی کئی فضائی کمپنیوں کو جنم دیا یہ اس وقت کی بات ہے جب ہماری پار لیمنٹ میں چند پڑھے لکھوں کے سوا ان پڑھوں کا راج ہوا کرتا تھا اور یہ پڑھے لکھے بھی ان پڑھ مگر وطن سے پیار کر نے والے خزانے کے ایک ایک پیسہ کو اپنے آ پ پہ حرام سمجھنے والوں کے سپوت تھے ۔ جھوٹ ، فریب اور مکاری جیسی صلا حیتیں بہت کم پائی جا تی تھیں ان میں ۔ ۔ ۔ کہ ان کی ان پڑھ اور کم پڑھی لکھی ماءوں کی گودیں اخلاق ، شرافت ، سچ اور حلال و حرام کی تربیت کا مرا کز تھیں ۔ سیا ستدان خاص کر جاگیردار نسل کے شہزادے عیاشی اس زمانے میں بھی کرتے تھے اور رنگ رلیاں اس زمانے میں بھی مناتے تھے لیکن اس پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ وطن عزیز کے اوائل دور میں ملکی خزانے کی لوٹ مار کا تصور نہ ہو کے برابر تھا ۔ ۔ 80 کی دہائی سے پہلے کسی بھی سیاستدان کو لے لیں ان سے سو سیاسی غلطیاں ہو ئی ہوں گی کرپشن ، بد دیانتی ۔ لوٹ کھسوٹ کے الزامات سے بہر حال ان کے دامن بہت کم دامن آ لودہ تھے ۔
لیکن یار اللہ جھوٹ نہ بلوائے جان کی امان پاءوں تو عرض کروں کہ جب سے سکہ بند پڑھے لکھوں نے راج سنبھالا ہے تاریخ کا پہیہ ہی الٹا چلنے لگا وطن عزیز کا قو می خزانہ باپ کا مال سمجھ لیا ان شہزادوں نے ۔ احتساب کا ڈھول بھی ا نہی کے ادوار میں سب سے زیادہ پیٹا گیا اور قومی خزانے کی بنیاد پر گلچھڑے بھی سب سے زیادہ انہوں نے ہی اڑائے ، سیاست میں لگانے اور کمانے کا فلسفہ بھی ا نہی پڑھے لکھے سیاسی سورماءوں کے دور کی دین ہے ، شا ئد انہی بارے علامہ نے کہا تھا کہ
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آ ئے صدا لا الہ اللہ
کہتے ہیں کہ پا کستان 90 یا 100ارب کا ڈالر کا مقروض ہے اگر ہم آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر نہیں لیں گے و ڈیفالٹ کر نے کا خطرہ ہے ۔ سو لے لیا ۔ ۔ وقتی خطرہ تو ٹل گیا مگر میرے منہہ میں خاک ڈوبتی کشتی پر بو جھ بڑھ گیا ۔ ۔ آ ئندہ کیا ہو گا ۔ ۔ یہ سوال بہت اہم ہے ۔ ۔ بہت پہلے جب غالب جوان تھا ایک فلم دیکھی تھی فلم کا نام تو یاد نہیں لیکن اس فلم کے ایک گیت کے بول کچھ یوں تھے کہ ۔ ۔
جب کشتی ڈو بنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
مگر یہاں پڑھے لکھوں کے دیس میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔ قرض اتارنے کے لئے قرض لئے جا رہے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ آ ئی ایم ایف کے پاس جا نا تحریک انصاف کی حکومت کے لئے انتہائی نا پسندیدہ اور مشکل فیصلہ ہے تو بھا ئی ان سے کو ئی پو چھے کس نے کہا ہے کہ نا پسندیدہ فیصلے کرو ۔ 22 کروڑ عوام کو مہنگائی اور غربت کی دلدل میں دھکیل کر حکومت کو کیا ملے گا سوائے افسوس اور دکھ کے ۔
گذ شتہ دنوں ایک افطار پارٹی میں ایک مذ ہبی سیاسی جماعت کے ایک ذمہ دار شخصیت کو سننے کا مو قع ملا ، گفتگو کی ابتدا مہنگائی سے ہو ئی اور تان ٹوٹی 100 ارب کے قرضوں پر ۔ ۔ سوال یہ تھا کہ یہ سنگ میل کیسے عبور ہو سکتا ہے اور آ ئی ایم ایف سے کیسے بچا جا سکتا ہے ۔ کہنے لگے مسئلہ ہی کو ئی نہیں وطن عزیز میں بہت سے وسا ئل ہیں یہ سو ارب ڈالر تو کچھ بھی نہیں اس ملک میں سکت ہے کہ قرضہ بھی اتر جا ئے اور معیشت بھی اپنے قد موں پر کھڑی ہو جا ئے ۔ ۔ ہمارے سوال کے جواب میں ان کا یہ معصو مانہ جواب ہ میں حیران کر گیا جلدی سے استفسار کیا کیسے , تو فرمانے لگے پا کستان کی مختلف حکو متوں کے ادوار میں صرف اسلام آ باد میں 280 فارم ہا ءو سز سیاسی بنیادوں پر من پسند افراد میں تقسیم کئے گئے ہیں ان میں ہر ایک فارم ہا ءوس کا رقبہ 5 ایکڑ ہے ۔ یہ کل رقبہ 1400 ایکڑ بنتا ہے جو کل 11200کنال ہے ۔ ایک کنال میں 20مر لے ہو تے ہیں حساب لگائیں تو یہ اربوں روپے کا ہزاروں مرلے رقبہ ہے جو سیاسی بندر با نٹ کے تحت تقسیم کیا گیا ۔ ان فارم ہا ءو سز ما لکان سے پہلے پا کستان کی بنیاد پر قربانی طلب کی جا ئے ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ریاست جراء ت کرے گی تو کو ئی بھی انکار نہیں کرے گا بھلے سے کو ئی جزل ہے یا سیاستدان ، سبھی کو مشکل وقت کا ادراک ہے ۔ ہزاروں کنال پر مشتمل ان فارم ہا ءو سز سے مارکیٹ ویلیو سے نصف بھی وصول ہو گئے تو نہ پا کستان مقروض رہے گا اور نہ ہی پاکستانی معیشت کمزور ۔
یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے مگر جراء ت کے ساتھ مشکل فیصلوں کی ضرورت ہے ، ایک سا بقہ چیف جسٹس کے زمانے میں یہ معاملہ سا منے آ یا تھا مگر پھر ٹھپ ہو گیا ۔ مگر بات وہی ہے کہ اگر اپنے آپ کو سنبھالنا ہے تو ہ میں قو می سطح پر مالیاتی ایمر جنسی نا فذ کر نا ہو گی کم از کم ایک سال کے لئے سب اللے تھللے بند کر دیں ۔ اللے تھللوں کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سبھوں کو پتہ ہے اگر کسی کو نہیں تو وہ سو شل میڈ یا پر چند گھنٹے گذار لے عام پا کستا نیوں کی پو سٹیں انہیں آ گہی دے دیں گی کہ با اقتدار و با اختیار طبقہ کن اللے تھللوں کا شکار ہے . بوجھ اترے گا تو کشتی منجھدھار سے نکل جا ئے گی ضرورت ہے بس ۔ ۔ سو سنار کی نہیں بس ایک لو ہار کی ۔ اور یہ ہے سو ارب ڈالر قرض اتارنے کا دیسی نسخہ ۔ ۔ ۔
انجم صحرائی