سوشل میڈیاکو کیسے استعمال میں لاناچاہیے
خوشبوئے قلم محمدصدیق پرہاروی
siddiquepriharvi@gmail;46;com
اسلامی نظریاتی کونسل نے سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق اپنی رائے جاری کردی، جس سے اجلاس کے تمام شرکا نے اتفاق کیا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس علامہ ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی کی زیرصدارت منعقد ہوا، جس میں علامہ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی، ملک اللہ بخش کلیار، جسٹس(ر) الطاف ابراہیم قریشی، علامہ ڈاکٹر عبدالغفور راشد، محمد جلال الدین ایڈووکیٹ، علامہ ملک محمد یوسف اعوان، مفتی محمد زبیر،علامہ پیر شمس الرحمٰن مشہدی، علامہ سید افتخار حسین نقوی، پروفیسرڈاکٹر مفتی انتخاب احمد اور صاحبزادہ محمد حسان حسیب الرحمٰن شریک ہوئے جب کہ ڈاکٹر عزیر محمود الازہری اور فریدہ رحیم نے آن لائن شرکت کی ۔ اجلاس میں شریک تمام اراکین کونسل نے اتفاق رائے سے حسب ذیل اعلامیے پر اتفاق کیا کہ سوشل میڈیا اپنے خیالات و آرا کے اظہار کا موثر ترین ذریعہ ہے ۔ اس میں کوئی دوارئے بھی نہیں ہے ۔ کسی دور میں اپنے خیالات وآراکے اظہارکاذریعہ صرف ریڈیو تھا ۔ جس تک ہرایک رسائی نہیں تھی ۔ بلکہ صرف حکومت وقت کی ہی رسائی تھی ۔ اخبارات بھی خیالات وآرا کے اظہارکاذریعہ ہیں ۔ تاہم اس میں بھی ہربات نہیں لکھی جا سکتی ۔ جب تک صرف پی ٹی وی تھا اس تک بھی صرف حکومت کی رسائی تھی اور اب بھی ہے ۔ جب سے نجی نیوزچینلزآئے ہیں بہت سے لوگوں کواپنے اپنے خیالات کاموقع مل رہا ہے ۔ ریڈیو اورپی ٹی وی پروہی نشراورٹیلی کاسٹ ہوسکتا ہے جوحکومت چاہتی ہے ۔ جب کہ نجی ٹی وی چینلزاوراخبارات میں حکومت اوراپوزیشن دونوں کوعوام تک اورعوام کوان دونوں تک اپنے اپنے خیالات پہنچانے کاموقع ملتا ہے ۔ البتہ ہرشخص نہ تواخبارات میں لکھ سکتا ہے اورنہ ہی کسی نیوزچینلز میں بول سکتا ہے ۔ جب سے سوشل میڈیا آیاہے اس نے عوام کی یہ مشکل آسان کردی ہے ۔ اب جس کے ہاتھ میں موبائل ہے وہ جوچاہے اپ لوڈ کرسکتا ہے ۔ اپنے خیالات کاجس طرح چاہے اظہارکرسکتا ہے ۔ دنیاکا اس وقت کوئی شعبہ نہیں ہے جس میں سوشل میڈیا استعمال نہ ہورہاہو ۔ اس کو بجا طورپر اچھے اور عمدہ مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے اعلامیہ میں یہ بات درست ہے ایساہی کیاجاناچاہیے ۔ یہ ایک ایساذریعہ ہے جس کے ذریعے معاشرے کوبگاڑابھی جاسکتا ہے اورسنوارابھی جاسکتا ہے ۔ جب سوشل میڈیاکا استعمال اچھے اورمثبت انداز میں کیاجائے گا تومعاشرے کوسنوارنے میں مدد ملے گی ۔ اور منفی و غلط مقاصد کے لیے بھی اس کا استعمال ممکن ہے ۔ سوشل میڈیاکانہ صرف منفی اورغلط مقاصد کے لیے استعمال ممکن ہے بلکہ ہوبھی رہاہے ۔ اس کامثبت کم اورمنفی استعمال زیادہ ہورہاہے ۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں یہ سب جانتے ہیں کہ اس کا استعمال کس طرح اورکون کون سے مقاصد کے لیے ہورہاہے ۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس کا استعمال اسلامی تعلیمات کی پیروی میں کرے ۔ سوشل میڈیا کو اسلامی تعلیمات کے فروغ،اخلاق و کردار کی تعمیر،تعلیم وتربیت کی ترویج و ترقی، تجارتی مقصد، ملکی امن و سلامتی کے استحکام اور دیگر جائز مقاصد کے لیے استعمال کرے ۔ ایسا ہوبھی رہاہے ۔ سوشل میڈیا کا ان مقاصد کے لیے بھی استعمال ہورہاہے ۔ لیکن اس کاتناسب بہت کم ہے ۔ البتہ اس میں مسلسل اضافہ بھی دیکھنے میں آرہاہے ۔ اعلامیہ میں اس بات پراس طرح عمل درآمد ہو جائے جس طرح ہوناچاہیے تواس کے جلد ہی مثبت اوردیرپا اثرات سامنے آئیں گے ۔ سوشل میڈیا کو توہین و گستاخی،جھوٹ،فریب،دھوکا دہی،غیر اخلاقی مقاصد،بدامنی،فرقہ واریت، انتہا پسندانہ اقدامات اور دیگر غیر قانونی و غیر شرعی مقاصدکے فروغ کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔ سوشل میڈیا کے منفی استعمال کوروکنا حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تمام طبقات کی بھی ذمہ داری ہے ۔ حکومت ایسے اقدامات کربھی رہی ہے ۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ عمومی مشاہدہ ہے کہ انٹرنیٹ کے استعمال کے دوران مختلف مقاصد کے حصول کے لیے وی پی این ایپ استعمال کی جاتی ہے ۔ کوئی وی پی این، سافٹ وئیر یا کوئی بھی ایپ بذات خود ناجائز یا غیر شرعی نہیں ہوتا، بلکہ ان کے درست اور غلط استعمال پر شرعی حکم کا دارومدار ہوتا ہے ۔ اگر توہین،گستاخی،بدامنی،انارکی اور ملکی سلامتی کے خلاف مواد کا حصول یا پھیلاؤ ہو تو بلا شبہ ایسا استعمال شرعی لحاظ سے ناجائز ٹھہرے گا اور حکومت وقت کو اختیار حاصل ہو گا کہ ایسے ناجائز استعمال کے انسداد کے لیے اقدامات کرے ۔ اگر وی پی این کے استعمال سے کوئی جائز مقصد حاصل کرنا پیش نظر ہو،جیساکہ بات چیت کے لیے کسی ایپ کا استعمال یا تعلیمی و تجارتی مقاصد کے لیے استعمال درست اور جائز ہوگا اور اس حوالے سے حکومت کے قوانین پر عمل کرنا چاہیے جیسا کہ حکومت نے وی پی این کی رجسٹریشن شروع کر دی ہے ۔ لہٰذا رجسٹرڈ وی پی این کے استعمال کو ترجیح دی جائے،غیر رجسٹرڈ وی این استعمال کرنے سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے ۔
ایک اسلامی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے لیے درج بالا جائز مقاصد کے حصول کو آسان بنائے،اور ناجائز مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات کرے ۔ میڈیا و سوشل میڈیا سے متعلق تمام حکومتی ادارے اس حوالے سے فعال کردار کریں اور اس سلسلے میں استعمال ہونے والے تمام پلیٹ فارمز اور ایپس کی نگرانی کریں ۔ آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق اسلام کی عظمت، ملکی سا لمیت، امن عامہ، تہذیب اور مناسب قانونی پابندیوں کے تابع ہر شہری کو تقریر،اظہار خیال، پریس کی آزادی اورمعلومات تک رسائی کا حق دیا گیا ہے ۔ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے دیگر جدید ذراءع کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور ان کا مثبت استعمال وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے، لہذا ان جدید ذراءع کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے انتظامی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کونسل سمجھتی ہے کہ جدید ذراءع پر محض پابندی عائد کرنا مسائل کا حل نہیں ، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان ذراءع کے مثبت استعمال کو ممکن بنانے یا ان کا مناسب متبادل پیش کرنےکے لیے بھی اقدامات کیے جائیں ۔ کونسل نے ماہرین کے ساتھ مشاورت کے ذریعے اس موضوع پر شرعی حوالے سے مزید تحقیقی کام کرنے کا بھی فیصلہ کیا ۔
سوشل میڈیا کوزیادہ ترنوجوان استعمال کرتے ہیں ۔ وقت گزارنے کا ان کے پاس موجودہ دورکا آسان ذریعہ ہے ۔ کسی دور میں تفریح کے لیے مختلف جسمانی اورذہنی کھیل کھیلے جاتے تھے ۔ ان میں کئی کھیل اب بھی کھیلے جاتے ہیں ۔ اب تفریح کے لیے زیادہ ترسوشل میڈیا استعمال کیاجاتا ہے ۔ اس کوزیادہ ترایسے نوعمرنوجوان استعمال کرتے ہیں جن کویہ شعورہی نہیں ہوتا کہ کیاصحیح ہے اورکیاغلط ۔ انہیں توجوچیزاچھی لگتی ہے اسی کی طرف دوڑنے لگ جاتے ہیں ۔ بغیرسوچے سمجھے پوسٹیں کرنا اورشیئرکرنا ان کے لیے ایک کھیل کے سواکچھ نہیں ۔ انہیں یہ شعورہی نہیں ہوتا کہ ان کی شیئرکردہ پوسٹ کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ تمام نوعمرنوجوان ہی ایسے ہوتے ہیں جن کوکوئی شعور نہیں ہوتا ۔ ہمارے معاشرے میں سمجھ داراورباشعورنوجوانوں کی بھی کمی نہیں ہے ۔ وہ سوشل میڈیا کواچھے بامقصد استعمال کوفروغ دے رہے ہیں ۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اس کا استعمال ہورہاہے ۔ حکومتیں اگرچہ سوشل میڈیاکے منفی استعمال کوروکنے کے لیے مختلف اقدامات کرتی رہتی ہیں ۔ ان اقدامات کومزیدبہترکرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے بھی تمام طبقات کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیاکے مثبت استعمال کوفروغ دینے اورمنفی استعمال کوروکنے میں اپنا اپناکرداراداکریں ۔ سکولوں اورکالجوں کے نصاب میں شامل کیاجائے کہ کس طرح سوشل میڈیا کواستعمال کرناچاہیے اورکس طرح نہیں ۔ اس مقصد کے لیے سیمینارزاورمختلف دیگرپروگرامزبھی کیے جاسکتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں این جی اوزبھی اپناکرداراداکرسکتی ہیں ۔ سوشل میڈیاکے بہتراستعمال کوفروغ دینے کے لیے ذہن سازی کی ضرورت ہے ۔ اوریہ کام پروفیسرز صاحبان، ٹیچرصاحبان اورعلمائے کرام بہترانداز میں کرسکتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سوشل میڈیاکوزیادہ ترنوجوان استعمال کرتے ہیں ۔ خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ جب ہندوستان تشریف لائے تووہاں کے ہندو گانے باجے کوزیادہ سنتے تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہندءوں کے ہی انداز میں تبلیغ دین قوالی کی صورت میں کرناشروع کردی ۔ جس کا اثریہ ہوا کہ بہت سے غیرمسلم دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے ۔ اسی طرح سوشل میڈیاکودین اسلام کی تبلیغ وترویج اورنوجوانوں کی تربیت کے لیے استعمال کیاجائے تواس کے مثبت اوردیرپانتاءج سامنے آئیں گے ۔ ہم بچوں کے ہاتھ میں بلیڈ کبھی نہیں دیں گے کہ اس سے بچے کاہاتھ کٹنے کاخدشہ ہوتا ہے ۔ موبائل دے دیتے ہیں جوبلیڈ سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ بچے کہانیاں شوق سے سنتے ہیں ۔ والدین بچوں کوکہانیوں کی صورت میں موبائل اورسوشل میڈیا کے اچھے استعمال کے فوائد اورمنفی استعمال کے نقصان کے بارے میں بتایاکریں ۔ ہم نوجوانوں سے بھی کہیں گے کہ وہ سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پرکوئی بھی پوسٹ کرنے سے پہلے یہ ضرورسوچ لیں کہ تمہاری اس پوسٹ کوتمہارے والدین اوراساتذہ دیکھ لیں توان کاردعمل کیاہوگا ۔ وہ اس سے خوش ہوں گے یاناراض ہوجائیں گے ۔ سب سے بڑھ کراورضروری یہ کہ اس پوسٹ کے بارے میں قیامت کے دن سوال کرلیاجائے توہم اللہ تعالیٰ کوکیاجواب دیں گے ۔ نوجوان کوئی بھی پوسٹ کرتے وقت یہ بھی سوچ لیاکریں کہ ان کی اس پوسٹ سے ان کی نیکیوں کی تعدادبڑھے گی یاگناہوں کی اوریہ کتنے لوگوں کی نیکیوں بڑھنے کاسبب بنے گی یا اس کی وجہ سے لوگوں کے گناہ زیادہ ہوجائیں گے ۔ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ہرعمرکے افرادکوئی بھی پوسٹ کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں توسوشل میڈیا سے غیراخلاقی مواد میں کمی ضرورآسکتی ہے ۔