خدمت خلق کے اداروں سے جڑی ذمہ داریاں وقت کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ قربانی اور درد مانگتی ہیں ۔ خدا خوفی کا احساس اور یہ کہ لوگوں کی دی ہوئی امانتوں کو دیانتداری سے خرچ کرنا اور اپنی پوری صلاحتیوں کو کھپا دینا سعید الرحمن ایسے ہی ایک الخدمت فاونڈیشن لیہ سے جڑا صدر ضلع رضوان احمد خان کی ٹیم کا وہ گوہر ناےاب تھا جو آج ہم سے جدا ہوگیا ۔
نومبر 2010 سے الخدمت فاونڈیشن کے ساتھ وابستگی اور بطور ایڈمنسٹریٹر میٹرنٹی ہوسپٹل اس پودے کو اپنی پوری توانائی سے سینچتا ایک بہترین انسان اور شاندار منتظم ٹھہرا ۔ الخدمت کے ضلع بھر میں بےشمار پروجیکٹس میں معاون کی حیثیت جن میں (آرفن کیئر پروگرام 140 سے زاےئد ےتیم بچوں کو تعلیمی اخراجات کی مد میں 4000 ماہانہ ادا کرتاہے)عیدالضحی کے موقع پر قربانی پروجیکٹ کی سپرویژن جس میں ہزاروں خاندانوں کو گوشت کی فراہمی ،ایمبولینس سسٹم ،شہر بھر میں پھیلے ہوئے کولیکشن باکسسز کا انتظام،الخدمت ڈایگناسٹک لیب کی تکنیکی معاونت یہ ہردم ایگریسو اور فعال منتظم کی حیثیت سے اپنی زمہ داریاں نبھاتے چلے گئے ۔ قابل قدر بات انکی زوجہ محترمہ بھی آرفن کیئر پروگرام میں بہت سپورٹیو رہیں ۔ الخدمت فاونڈیشن کا ہر فرد جہاں ایک اکائی اور خاندان کی جڑت میں شامل ہے اسی تناظر میں رضوان احمد خان کا یہ دکھ بھرا اظہار کہ یہ شخص قیمتی ہیرا تھا لیکن مٹھی میں ریت کی مانند نکل گیا ۔
میٹرنٹی ہوسپٹل کے 2020 کے آڈٹ کلیرنس پر بڑے فخر سے کہنے لگے عامر بھائی مٹھائی کھلائیں آج ہمارے ذمہ واجب الداء کچھ نہیں اور سارے حسابات کلیئر ہیں ۔ کسی ادارے کی ٹرانسپرنسی اور ساکھ واقعی اسکے مالی معاملات سے جڑی ہوتی ہے اور الحمداللہ اس بندہ خدا کے 2019 کلیرنس میں بھی اسی طرح کے الفاظ تھے جو آج بھی دل و دماغ پر نقش ہیں ۔ 39 سال کی عمر قلیل میں تین معصوم بچوں کو اللہ کے سپرد کرتے ہوئے وہ اسکے دربار میں سرخرو ہی پیش ہوا ۔
عرصہ دراز سے کمر کی تکلیف میں مبتلا ایسا شاندار منتظم کہ میٹر نٹی ہوسپٹل کو تکنیکی مہارت اور سروسز میں سب سے آگے لے گیا اور ایسا صبر آزما کہ کبھی کام کی انتہائی مصروفیت کے باوجود اپنے درد کو کبھی کسی کے سامنے نہ تو بیان کیا نہ شکائیت ۔ آرگنائزیشن مینجمنٹ ایک مشکل سبجیکٹ ہوتا ہے جہاں فیصلہ سازی کی قوت ،معاملات کی سمجھ بوجھ اور خصوصی طور پر ان کا اطلاق وژن مانگتا ہے جو اس فرد میں بدرجہ اتم موجود تھا ۔ بلاشبہ فاونڈیشن سے وابستہ ذمہ داران کی نظریاتی وابستگی اور انکے اخلاص کو کسی دنیاوی ترازو میں تو نہ تولا جا سکتا ہے اور اسکی جزا بھی ےقینا رب العزت کے ہاں محفوظ ہو گی سعید الرحمن اپنی ذمہ داریوں کو حق سمجھ کر نبھا گئے ۔ وہ توےاران وفا کیش قبیلے کا فرد قرار پایا اور کسی نے سہی ترجمانی کی ۔
ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں
ان کی جدائی پر جہاں انکے عزیزو احباب غمگین ہیں وہاں الخدمت سے جڑے تمام اراکین و زمہ داران بھی پرنم ہیں لیکن اللہ کے محبوب محمد ﷺکی یہ دعا کہ دل تو غمگین ہوتے ہیں اور آنکھ بھی روتی ہے لیکن ہم اللہ کی رضا میں راضی ہیں ۔
انکی دس سالہ جدوجہد اور زندگی میں وہ جاتے جاتے الخدمت کے کارکنان و خدمت گزاروں کے لئے ایک مثال اور معےار دے گےا جو ہم سب کے قابل تقلید ہے ۔ اللہ انکی بے مثال خدمات کو قبول فرمائے انکے اعزاء واقرباء کو صبر جمیل عطا کرے ۔ آمین