اک سورج تھا تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
دنیا میں ہر چیز کی نفی کی جا سکتی ہے مگر ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کوئی امیر غریب عربی عجمی مشرق سے مغرب اور شمال سے لیکر جنوب تک کو ئی ذی روح انکار نہیں کر سکتا وہ موت ہے بلاشبہ موت ایک حقیقت ہے
ضلع لیہ کی صحافتی برادری ابھی منشی دوست محمد سرپرست اعلی پریس کلب چوک اعظم حاجی انور گبر اور رانا اعجاز محمود ڈائریکٹر تعلقات عامہ جیسی شخصیات کی وفات کا غم بھلا نہیں پائے کہ بزرگ محنتی مشفق صحافی سعید احمد باروی داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے داغ مفارقت دے گئے سعید احمد باروی کا تعلق جنوبی پنجاب کے پسماندہ خطہ قصبہ جمن شاہ سے ہے پسماندہ خطہ میں رہتے ہوئے مظلوم محکوم افراد کوانکی حثیت کا احساس دلاتے ہوئے انکے مسائل کو ارباب اختیار تک اپنے قلم کے ذریعہ پہنچانا انتہائی کھٹن کام جہاں مظلوم ظلم تو سہتا ہیں مگر ظالم کے خلاف آوا ز بلند کرنا تو درکنار اس پر سوچنا بھی گناہ سمجھے ایسے معاشرے میں ضمیر حوصلہ رکھنے والہ شخص اندر ہی اندر گھلتا رہتا ہے سعید احمد باروی نے بھرپور جوانی میں قلم قبیلہ کے ساتھ جو تعلق جوڑا اسے انتہائی ایمانداری اخلاص کیساتھ آخری دم تک نبھایا شعبہ صحافت میں جہاں بیوروکریسی منتخب نمائندوں انکے حواریوں پٹواریوں تھانیداروں سمیت جرائم پیشہ کریمینل افراد کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں پریس پولیٹیکس کے سبب اپنے ہی قلم قبیلہ کے ساتھیوں کی در پردہ سازشوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے
سعید احمد باروی ایک شخص نہیں بلکہ ایک تنظیم تھے وہ ہمیشہ شعبہ صحافت سے منسلک ہونے والے نئے لکھاریوں کو یہ ہی کہتے سمجھاتے کہ آپ کسی بھی صحافتی گروپ سے منسلک ہونے کی بجائے اپناناطہ قلم اور مظلوم کیساتھ جوڑے رکھیں اور محکوم مظلوم کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں سعید احمد باروی ڈسٹرکٹ پریس کلب کے بانی اراکین میں سے تھے مگر انہوں نے ہمیشہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے قلم کے تقدس کی عصمت کو برقرار رکھا
سعید احمد باروی کا تعلق جہاں جمن شاہ سے تھا وہیں چوک اعظم کے نواح مین انکا رقبہ بھی ہے جہاں وہ فصل کے ایام میں بکثرت جبکہ عام ایام میں جمعہ کے دن چکر لگاتے تھے جس کے سبب ان سے ملاقات رہتی
سعید احمد باروی ہمیشہ عام آدمی کی بات کرتے ہوئے عام آدمی کو اسکی حثیت اور ریاست میں اسکے مثبت کردار کو احسن انداز میں ادا کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں
پریس پولیٹیکس کی بابت مجھے یاد ہے کہ 2014ء میں میری ان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ پریس کلب کو شعبہ صحافت میں نئے داخل ہونے والے صحافیوں کی ذہن سازی کرنی چاہیے کہ وہ کسی جاگیردار سرمایہ دار اور وڈیرے کی حثیت سے مرعوب ہونے کی بجائے علاقائی مسائل کو کس انداز میں قلم کے ذریعہ اجاگر کر سکتے ہیں جبکہ شعبہ صحافت میں منسلک ہونے والے نئے صحافیوں کو صحافتی امور سکھانے کی بجائے گروپنگ میں ڈال دیا جاتا ہے جس کے سبب بلند عزائم نیک نیتی سے شعبہ صحافت سے منسلک ہونے والے صحافی ڈی ٹریک ہو جاتے ہیں معاشرے میں انہوں نے جو مثبت کردار ادا کرنا ہوتا ہے وہ منفی رجحان کی جانب مرغوب ہوتے ہوئے اپنے ہی قبیلہ کی بابت غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں
سعید احمد باروی نے نہ صرف علاقائی بلکہ قومی اخبارات میں اپنے فرائض سر انجام دیے انکی وفات سے نہ صرف صحافتی بلکہ سماجی سیاسی مذہبی حلقوں میں بھی سوگ کی کیفیت کا سماں ہے
سعید احمد باروی تعلیم دوست شخصیت تھے ہمیشہ ہی دوستوں رشتہ داروں حتی کہ کسی ملنے کے لئے آنے والے شخص سائل کو بھی بچوں کو تعلیم دلوانے کی بابت نصیحت کرتے تھے سعید احمد باروی کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں جنہیں انہوں نے اعلی تعلیم دلوائی اور اب وہ گورنمنٹ اور پرائیویٹ اداروں میں ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں
سعید احمد باروی کی شخصیت بلاشبہ شعبہ صحافت سے منسلک افراد اور نئے آنے والے وقت میں صحافت سے منسلک ہونے والے نوجوانوں کے لئے ایک درس گاہ کی حثیت رکھتی ہے کہ کیسے کئی دہائیاں قبل انہوں نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر سے دور رہتے ہوئے صحافتی امور سرانجام دیتے ہوئے نیک نامی کمائی اور مظلوموں کی آواز بنے
سعید احمد باروی کی نماز جنازہ انکی تعزیت کے لئے آنے والے افراد میں اکثریت ایسے مظلوموں کی ہے جن کی وہ آواز بنے اور انہیں انکا حق دلوایا ایسے افراد کی دعائیں یقینی طور پر صدقہ جاریہ کی حثیت رکھتی ہیں ضلع لیہ کی صحافتی براداری ابھی منشی دوست محمد سرپرست اعلی پریس کلب چوک اعظم حاجی انور گبر اور رانا اعجاز محمود ڈائریکٹر تعلقات عامہ جیسی شخصیات کی وفات کا غم بھلا نہیں پائے کہ بزرگ محنتی مشفق صحافی سعید احمد با روی کی وفات کا غم بھلانے میں بھی وقت لگے گا
مستقبل میں جب بھی ضلع لیہ کی صحافت کے بارے جب کوئی مورخ نیک نیتی سے لکھے گا تو سعید احمد باروی کو مثبت انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھنا اسکی مجبوری ہوگئی
اللہ سبحانہ و تعالی سعید احمد باروی کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔ آمین