اسلام آباد . وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کے 12 ارب ڈالرز کے پیکیج کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے حکومت پر دباؤ کم ہوا ہے اور مزید دو ممالک سے بھی بات چیت چل رہی ہے جو پاکستان کو اسی طرح کا پیکیج دیں گے، عوام مشکل وقت صبر سے کاٹیں، روشن مستقبل زیادہ دور نہیں ہے۔ انہوں نے کرپشن کیخلاف اپنے عزم کو ایک مرتبہ پھر دہرایا اور اپوزیشن جماعتوں کو واضح پیغام دیا کہ کوئی کچھ بھی کر لے، کسی کو این آر او نہیں ملے گا، مشرف نے دباؤ میں آ کر این آر او دیدیا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔
دورہ سعودی عرب کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں قوم کو خوشخبری سنانا چاہتا ہوں، حکومت میں آتے ہی ہم پر قرضوں کی اقساط کی ادائیگیوں کا بوجھ پڑ گیا جو پچھلی حکومتوں نے لے رکھا تھا اور اگر ادائیگیاں نہ کی جاتیں تو یہ ملک ڈیفالٹر ہو جاتا مگر ہماری کوشش کامیابی رہی اور سعودی عرب نے زبردست پیکیج دیدیا ہے جس کے باعث حکومت پر دباؤ کم ہوا ہے،حکومت پر یہ دباؤ بھی تھا کہ اگر صرف آئی ایم ایف سے قرض لیتے تو رقم زیادہ لینا پڑتی اور عوام پر بوجھ بڑھ جاتا کیونکہ آئی ایم ایف زیادہ قرض دینے پر سخت شرائط عائد کرتا اور بوجھ عوام برداشت کرتے جن پر پہلے لئے گئے قرضوں کا بھی بہت دباؤ ہے اور مجھے احساس ہے کہ عوام پر کیا گزر رہی ہے؟ اس لئے کوشش تھی کہ آئی ایم ایف سے کم سے کم قرض لیں۔سعودی عرب کی جانب سے ملنے والے پیکیج کے باعث ہمیں امید ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کم لینا پڑے گا اور عوام پر زیادہ بوجھ بھی نہیں پڑے گا جبکہ آنے والے دنوں میں اور بھی خوشخبری سناؤں گا کیونکہ ہماری مزید دو ممالک کیساتھ بات ہو رہی ہے اور ان سے بھی اسی طرح کے پیکیج کی توقع ہے، جس کے ملنے سے بوجھ مزید کم ہو جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان نے یمن میں جاری لڑائی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو تمام مسلمان ممالک میں جاری جھڑپوں کو ختم کر کے مسلمان ملکوں کو اکٹھا کریں گے۔
اس موقع پر وزیراعظم نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جاری احتجاج پر بھی بات کی اور کہا کہ دو جماعتیں پچھلے 10 سال اس ملک پر حکومت کرتی رہیں، انہوں نے پاکستان کے قرضوں کو ہزاروں ارب تک پہنچا دیا، 1971ءمیں پاکستان کا قرض 30 ارب تھا حالانکہ 60 کی دہائی میں پاکستان نے تیزی سے ترقی کی تھی،40 سالوں کے دوران یہ قرضہ 2008ءمیں 6 ہزار ارب ہو گیا جبکہ پچھلے 10 سالوں میں یہ 30 ہزار ارب ہو گیا ہے،حکومت کے ناکام ہونے کی باتیں کرنے والوں کو شرم آنی چاہئے کیونکہ یہ سب انہوں نے کیا۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ 2009ءمیں پاکستان کا گردشی قرضہ 230 ارب روپے تھا اور 2013ءمیں پاکستان کے گردشی قرضے 480 ارب روپے کے تھے، 2013ءمیں برسراقتدار آنے والی جماعت نے 480 ارب روپے کا قرض ادا کر دیا لیکن آج گردشی قرضہ 1200 ارب روپے ہو گیا ہے،گزشتہ حکومت ورکرز کا 40 ارب روپے کا ویلفیئر فنڈ بھی کھا گئی جبکہ پنجاب حکومت بھی 1200 ارب روپے کا قرضہ چھوڑ گئے اور 57ارب روپے کے چیک بھی سائن کر گئے حالانکہ اکاؤنٹس میں رقم ہی نہیں تھی جس کے باعث چیک باؤنس ہو گئے،یہ سٹیل مل کے ورکرز کے پیسے کھا گئے، ان لوگوں نے ملک کیساتھ یہ کچھ کیا ہے مگر آج یہ جمہوریت بچانے کے نام پر کھڑے ہو گئے حالانکہ ابھی تو ہم نے کچھ کیا ہی نہیں، ہماری پالیسیز تو آگے چل کر لوگوں کو پتہ چلیں گی کیونکہ ابھی تو ان کے نقصان کا بوجھ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس تباہی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو انہوں نے 10 سالوں میں مچائی۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہشور مچانے والوں کو پتہ ہے کہ جب ہم 30 ہزار ارب روپے کا آڈٹ کرائیں گے تو انہیں معلوم ہے کہ ان کی کرپشن سامنے آئے گی اور یہ اپنی کرپشن بچانے کیلئے جلسے جلوسوں کی بات کر رہے ہیں، ان سب کی صرف ایک ہی کوشش ہے کہ کسی طرح این آر او مل جائے، میں انہیں پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ سب کان کھول کر سن لیں، آپ نے سڑکوں پر آنا ہے، ہم کنٹینر دینے کیلئے تیار ہیں بلکہ ہم کھانا بھی پہنچا دیںگے، اسمبلیوں میں جو کچھ کرنا ہے کھل کر کریں، کسی کو کوئی این آر او نہیں ملنے لگا، میں کسی کرپٹ آدمی کو نہیں چھوڑنے لگا، میں عوام سے وعدہ کر کے آیا تھا کہ ملک کے کرپٹ لوگوں کو جیلوں میں ڈالوں گا کیونکہ جب تک کرپشن پر ہاتھ نہیں ڈالیں گے، یہ ملک ترقی نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ قرضے صرف اس وجہ سے چڑھے ہیں کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسہ باہر بھیج دیا گیا۔ آج غریبوں کے بینک اکاؤنٹس میں اربوں روپے آ رہے ہیں، یہ پیسہ عوام کا چوری کیا ہوا پیسہ ہے جو حکومتی اکاؤنٹس سے نکل کر اس طرح کے اکاؤنٹس میں آتا تھا اور پھر منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیج دیا جاتا تھا، یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ڈرائیں گے دھمکائیں تو ہم انہیں چھوڑ دیں گےاور این آر او دے دیں گے، ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔
ویراعظم نے کہا کہ ہم نے قرضے کہاں سے واپس کرنے ہیں؟ کیا عوام پر ٹیکس لگائیں؟ چیزیں مہنگی کریں؟ ہم پاکستان میں چلنے والے اس سائیکل کو توڑنے کیلئے احتساب کریں گے، جو کوئی کچھ مرضی کر لے، ہم نے احتساب کرنا ہے،یہ جو مقدمات کی بات کر رہے ہیں تو سب کے سب پرانی حکومتوں کے ہیں، ہم نے تو ابھی کچھ کیا ہی نہیں، ابھی تو آڈٹ ہو رہے ہیں مگر یہ سب لوگ نیب کے پرانے مقدمات پر بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں اپنی قوم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ فکر نہ کریں، ملک برے وقت سے گزرتا ہے، میں پھر سے کہتا ہوں جب ہم کرپٹ لیڈرشپ کو برداشت کرتے ہیں، کرپشن کو برداشت کرتے ہیں تو اس کی قیمت قوم کو ادا کرنا پڑتی ہے اور بدقسمتی سے غریب لوگ ہی اس قیمت کو ادا کرتے ہیں، پاکستان میں کرپشن نیچے آ گئی ہے اور مزید نیچے آئے گی،منی لانڈرنگ کو کنٹرول کرنے کیلئے ادارے مضبوط کر رہے ہیں اور میں خود اس حوالے سے میٹنگز کر رہا ہوں،ایکسپورٹرز کی مدد کر کے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ
مجھے اس بات پر بھی خوشی ہے کہ سعودی عرب نے وہاں مقیم پاکستانی محنت کشوں پر ویزے کی فیس کا بوجھ میرے کہنے پر کم کر دیا ہے،ہم پاکستان میں 50 لاکھ گھر بنانے جا رہے ہیں جو براہ راست اپنے ساتھ 40 انڈسٹریز کو فعال کر دے گا، نوکریاں پیدا ہوں گی اور عام نوجوانوں کو بزنس میں جانے کا موقع ملے گا، ہمارے بہت سے پاکستانی تعمیرات کے کام میں ہیں اور بے حد محنتی ہیں، وہ بیرونی سرمایہ کاری لے کر پاکستان آئیں گے۔
وزیراعظم نے آئندہ چند دنوں میں خصوصی پیکیج کے اعلان کا عندیہ بھی دیا اور کہا کہ ہم نچلے طبقے کیلئے اور غربت کم کرنے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں جنہیں آنے والے دنوں میں آپ کے سامنے رکھا جائے گا،میں چاہتا ہوں کہ آپ سب ایک بات سمجھ جائیں کہ ہمیں تھوڑی دیر کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے، ہر ادارہ نقصان کر رہا ہے اور نقصان بڑھتے جا رہے ہیں، سارے اداروں کو ٹھیک کرنے میں تکلیف ہوتی ہے، جب کسی کو کینسر ہو جائے تو آپریشن تک اسے تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے لیکن بعد میں مریض ٹھیک ہو جاتا ہے تو ہمارے معاشرے کو بھی تھوڑی تکلیف ہو گی لیکن جو اللہ نے اس ملک کو دیا ہے، آنے والے وقت میں سب کچھ بدل جائے گا۔