رو روحی ، تھل دامان، کیچ وچولستان۔ کے علاقوں میں سرائیکی عوام، سرائیکی زبان، سرائیکی ثقافت، سرائیکی روایات، سرائیکی تہذیب و تمدن ، رہن سہن ، پیار و محبت بانٹتے لوگ ہمارہ ورثہ ہے جو کہ ہم سرائیکی انتہائی خوشی سے ملکیت کے دعوے دار ہیں ۔ ماہ مارچ کا جیسے ہی آغاز ہوتا ہے تو علاقائی سطح پر علاقائی ثقافتوں کا دن منایا جا رہا ہوتا ہے کہیں سندھی ، کہیں پختون، تو کہیں بلوچ اپنا دن مناتے ہیں اس دنوں میں 6مارچ سرائیکی ثقافت و کلچر و اجرک کا دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد گلوبل ویلج کی اس دنیا میں نسل نو کو اپنے آباو اجداد کی تہذیب و تمدن، رہن سہن،ثقافت و روایات کے بارے میں بتایا جا سکے۔سرائیکی دراصل قدیم سندھی تہذیب کے ساتھ ملتی ہے جو تقریبا چالیس ہزار سال پرانی ہے، محمد بن قاسم نے جب راجہ داہر کی حکومت ختم کی تھی اور عالم اسلام کو ہندوستان میں داخل کیا تھا تب سرائیکی علاقے کا ملتان شہر بھی اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔دریائے ستلج کے کناروں سے کوہ سلیمان کی وادیوں اورچوٹیوں تک پھیلے ہوئے مدھروشیریں زبانِ خوش اخلاق و سادہ سرائیکی لوگ آباد ہیں سرائیکی خطہ میں پنجاب کے ریاست بہاولپور، ملتان،لودھراں، بہاولنگر، ڈیرہ غاذی خان، راجن پور، مظفر گڑھ، لیہ، بھکر، میانوالی،جھنگ، خوشاب خیبر پختونخواہ میں ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں، نوشہرہ سندھ کے سکھر،میرپور خاص،لاڑکانہ،دادو،سہون،سانگھڑ، نواب شاہ، حیدرآباد اور کراچی کے چند علاقوں میں کثرت سے رہائش پزیر ہیں ۔ بلوچستان کے کئی اضلاع سمیت ایران، افغانستان، برطانیہ وبھارت میں بھی آباد ہیں۔سرائیکی لوگ انتہائی پرامن،ملنسار،مہمان نواز،اور خوش اخلاق ہیں ،سرائیکی علاقوں میں محبت و بھائی چارہ کی وجہ سے پرامن اور فسادات سے پاک ہیں ۔لباس میں شلوار قمیض سر پر پٹکا/ پگڑی جوتوں میں کھیڑی و کھسہ،مونڈھے/کندھے پر اجرک/شال استعمال کرتے ہیں اس لئیے تو شاہر نے کہا اور گوئیے نے گایا۔ مونڈھے رکھدائیں کالی شال، ہتھ وچ رتا رومال ، تیڈیاں ریساں کون کرے۔۔۔سرائیکی علاقوں میں بسنے والوں میں زیادہ تر بولی جانے والی زبان سرائیکی ہے جو کہ سندھی آریائی قبیلے سے تعلق رکھتی ہے ، طرزرسم الخط عربی و فارسی ہے ، ہندوستان میں اسکو "ہندکو”کہتے ہیں ۔سرائیکی قوم کے کھانوں میں گندم، جو،باجرہ، مکئی کی روٹی، مکھن، لسی ساگ، سوانجنا،ستو، ڈھوڈا،بھت(دلیہ) سوہن حلوہ اور کھویا شامل ہیں دیسی گھی سے بنی اشیا ء رغبت سے کھاتے ہیں،زیادہ تر کاشت کاری/کھیتی باڑی/زراعت کرتے ہیں اور مویشی پالتے ہیں ، اس لئیے فصلوں میں گندم، گنا، کپاس، چاول، چنا،مکئی، باجرہ،تربوز، خربوزہ،پیاز، آلو و دیگر سبزیات کاشت کرتے ہیں ۔ مالٹے، آم، امرود اور کھجور کے باغات کثرت سے پائیے جاتے ہیں۔کھیلوں میں کشتی، کبڈی، دودہ،گُلی ڈنڈہ، چپہ چرالی، کتھلیاں،اسٹاپو، چھپن چھپائی،اسٹاپو، والی بال، کرکٹ شامل ہیں۔سرائیکی علاقوں کے سرائیکی لوگ پیر فقیراور درباروں کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، یہاں سے منتیں مانگتے ہیں اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں اسی لئیے یہاں دربار، مزار اور پیر فقیر سمیت ولی اللہ و کامل لوگوں کے ڈیرے آباد رہتے ہیں، معروف درباروں میں ملتان کے بہاوالدین زکریا،شاہ رکن عالم،شاہ گردیزی، ڈی جی خان سے سخی سرور،کوٹ مٹھن(راجن پور) سے خواجہ فرید، تونسہ شریف سے خواجہ سلیمان تونسوی، لیہ سے پیر سواگ شریف، راجن شاہ، پیر جگی شریف،کروڑ لعل عیسن، شاہ حبیب شمار کئیے جاتے ہیں،سرائیکی لوگ میلوں ٹھیلوں کے بھی شوقین ہیں جس کی تیاری و حصہ ڈالنے کے لئیے آگے آگے ہوتے ہیں ، ان میلوں کے لئیے گھوڑے ، اونٹ، بیل، کتے اور دیگر پالتے ہیں سہون شریف، کوٹ مٹھن، سخی سرور، سواگ شریف ، کروڑ لعل عیسن کا میلہ چودہویں، راجن شاہ کا نوروزہ، میلہ مویشاں، چولستان و تھل جیپ ریلی کافی اہمیت کے حامل ہیں، جس میں گھوڑاڈانس و دوڑ، اونٹ جھومر،دوڑ، کشتی، بیل دوڑ شامل ہیں، گائے، بھینس،بکرے بکریاں،بھیڑ، اونٹ گھوڑے پالے جاتے ہیں۔وساخ/بیٹھک،پر بیٹھنا، دکھ سکھ بانٹنا،قصہ سنانا،حال احوال پوچھنا، مہمان نوازی کرنا، حقہ پینا ، دکھ سکھ ، شادی بیاہ سب کی سانجھی ہوتی ہے۔
عوام کا رہن سہن، روایات،ثقافت،تہذیب و تمدن، زبان علاقے کی عکاسی کرتے ہیں ، کسی دور میں یہ علاقہ خوشحال ہوا کرتا تھا، اپنی پہچان رکھتا تھا عرب کے لوگ اس علاقے کو "بیت الزاھب”یعنی سونے کا گھر کہتے تھے لیکن آنے والے نااہل حکمرانون نے اس علاقے کو پس پشت ڈال دیا اور اس کی تعمیر وترقی پر کوئی توجہ نہ دی بلکہ جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا۔جس پر شاکر شجاع آبادی نے کہا ہے
"لیڈر ساڈے نال کریندن پکے وعدے ایویں
جیویں کالے کاغذ اُتے کالے حرف سیاہی۔
اورامان اللہ ارشد نے کہا ہے
ساڈے نین بُھلا سُکھ چین کھڑن اُوندی شوخ شکل توں نئیں نکھتے
تھئے غرق ہیں حُسن دے نیناں وچ اوندے مست کجل تونں نئیں نکھتے
ساڈے ذہن پھسے ہن وعدیاں اچ ،پل پل اج کل توں نئیں نکھتے
جگ ارشد پہنچ گئے چندر اُتے اساں زلف دے ول توں نئیں نکھتے۔
اس علاقے نے کافی شاعر بھی پیدا کئیے،غلام فرید، شاکر شجاع آبادی، شمشاد سرائی، منشی منظور حسین، طارق خان، امان اللہ ارشد، شفقت بزدار، شعیب جاذب ودیگر کے ساتھ مقامی گائیک عطااللہ عیسی خیلوی، احمد نواز چھینہ، رضوان شہزاد شامل ہیں ۔
موجودہ دور میں سرائیکی علاقے کو الگ صوبے کی اشد ضرورت ہے ، اس قدیم تہذیب کو زندہ رکھنے کے لئیے الگ شناخت کی ضرورت ہے جس کے لئیے ہماری چند تنظیمیں کام کر رہی ہیں لیکن آپس میں اتحادو اتفاق نہ ہونے کہ وجہ سے علاقے کی تعمیر و ترقی میں خاصا نقصان ہو رہا ہے سرائیکی ثقافت کے اس دن کے موقع پر ہمارے نوجوانوں کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی روایات، تہذیب کو زندہ رکھ سکیں ۔ سئیں احمد خان طارق نے یہاں کہا ہے۔
اساں کھلیں پڑھ پڑھ اَنج تھی گیؤں، جُل کہیں دے کول نماز پڑھوں
ہتھ بَدھ بھاویں، ہتھ کھول پڑھوں،اے پھول نہ پھول نماز پڑھوں
ہتھ تسبی مسجد رقص کروں،پاء گَل وِچ دول نماز پڑھوں
جِتھ طارق دڑکے نہ ہوون او مسجد گول نماز پڑھوں۔
مہر کامران تھِند لیہ
whatsup: 03038229933
mail:kamranlyh@gmail.com