ماہ ربیع الاول اس نبیؐ مکرم کی آمد کا مہینہ ہے کہ جن کی آمد نے انسانیت کو ظلمت کی تاریکیوں سے نکال کر امن و آشتی کے نور سے منور فرمایا۔ سسکتی ، بلکتی اور تڑپتی انسانیت کو حقیقت انسانیت اور مقام انسانیت سے روشناس کرایا۔ جن کی آمد نے زندہ درگور ہوتی بیٹیوں کو رحمت قرار دے کر وہ اعلٰی اور ارفع مقام عطا فرمایا کہ جس کی تاریخ انسانی میں مثال نہیں ملتی۔ پیارے نبیؐ کی آمد نے غلامی کی زنجیریں توڑ کر آقا اور غلام کے تصور کو ملیامیٹ کر دیا اور غلاموں کو اپنے ساتھ بیٹھا کر مساوات کی بنیاد رکھ دی۔ آپؐ کی آمد نے خطہ عرب میں جانوروں کو پانی پہلے پلانے پر شروع ہونے والے جھگڑوں میں خون کی ندیاں بہانے والوں کو پیار اور محبت کے سمندر میں بدل دیا۔ آپؐ کی آمد نے خون خرابے اور جنگ و جدل میں ڈوبے لوگوں کو باہم شیر و شکر کر کے محبت و اخوت اور ایثار و قربانی کی لڑیوں میں پرو دیا۔ آپؐ کی آمد نے بے حسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوۓ بدوؤں کو تھام کر احساس کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ آقا حضورﷺ نے اپنی تعلیمات ، محبت ، اور شفقت کے زریعے نفرتوں کو محبتوں میں ، عداوتوں کو رفاقتوں میں اور دوریوں کو قربتوں میں بدل دیا۔ جو جہالت کی تاریکیوں میں گم تھے وہ علم و عرفان کے روشن مینار بن گئے ۔ آپؐ نے کمزوروں کو طاقت دی، بے سہاروں کو سہارا دیا، اور گرے ہووؤں کو تھام کر رہبر و رہنما کر دیا ۔ وہ جو آپؐ کے خون کے پیاسے تھے وہ آپ کے دیدار کے طلبگار بن گئے۔
صفات خداوندی کی عملی صورت میرے نبیؐ کی سیرت ہے آپؐ نے سیرت اور کردار کے زریعے انسانیت کی کردار سازی کی۔ انسان کو خدا رب العزت کا عرفان عطا کرنے والے آقا حضور ﷺ نے صرف احکامات خداوندی سے آگاہ ہی نہیں کیا بلکہ پہلے ان احکامات کو خود پر لاگو کیا اور پھر عمل کی صورت میں پوری انسانیت کے سامنے پیش کیا۔ آپؐ کی حیات طیبہ پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے آپؐ نے زندگی کے ہر شعبے رہنما اصول متعین کئے عورتوں، مردوں ، بچوں ، بزرگوں ، بیواؤں ، چھوٹوں، بڑوں ، قیدیوں ، اقلیتوں غرضیکہ سب کے سب پر حقوق اور سب کے سب پر فرائض واضح کر دئیے۔
آپؐ نے اعلان نبوت سے پہلے ہی اپنے حسن اخلاق اور حسن کردار کے زریعے پورے معاشرے کو اپنا گرویدہ کر لیا یہاں تک کہ آپؐ کی امانت و دیانت کا یہ عالم تھا کہ آپ کو پورے عرب میں صادق و امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا اور اعلان نبوت کے بعد جب اس وقت کے طاقتور طبقات اور مقتدر قوتوں نے اپنی جھوٹی اناؤں اور جھوٹے اقتدار کو خطرے میں دیکھا تو تمام طاقتور لوگ آپؐ کی جان کے در پے ہوگئے مگر اس کے باوجود کسی نے آپؐ کے کردار پر انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں کی یہاں تک کہ امانتیں پھر بھی آپؐ کے پاس رکھی جاتی تھیں۔ قربان جاؤں آقا حضور ﷺ کی رحمت و شفقت کا یہ عالم تھا کہ نعوز بااللہ جادوگر کہنے والی بڑھیا کی گٹھڑی سر پر اٹھا کر اسے منزل پہنچا دیا کوڑا پھینکے والی عورت کی عیادت کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے اور راستوں میں کانٹے بچھانے والوں کے راستوں کو پھول کر دیا اور اس سے بڑھ کر رحمت عالم کی رحمت کا عالم کیا ہوگا کہ آپؐ نے طائف کی وادی میں پتھر مار کر لہو لہان کرنے والوں کے لیے ھدایت کی دعا فرمائی اور فتح مکہ کے موقع پر جب وہ تمام طاقتور سردار آپ کی بارگاہ میں سرنگوں تھے جنہوں نے آپ کے لیے مکہ کی زمین تنگ کر دی ، آپؐ کے ساتھیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے آپؐ کو ذہنی طور پر طرح طرح کی اذیتیں دیں آپؐ پر جنگیں مسلط کر کے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور آپ کو جان سے مار دینے کے ناپاک منصوبے بناۓ مگر آپؐ نے بدلہ لینے کے بجاۓ بدلے میں سب کو معاف کر دیا۔
آپؐ کی سادگی کا یہ عالم کہ ریاست مدینہ اور کائنات عالم کے فیصلے مسجد نبویؐ کی چٹائی پر بیٹھ کرتے جو اپنے لیے پسند کرتے وہ سب کے لیے پسند کرتے صحابہ کرام پیٹ پر ایک پتھر باندھتے تو آپؐ دو باندھتے اور ہر کام کی عملی مثال خود پیش کرتے۔
سچ تو یہ ہے جس نبیؐ محترم و مکرم پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہوں سوہنا رب جس کی تعریفیں کرتا ہو اور جس کا اخلاق حسنہ قرآن کریم ہو وہاں ہم جیسے عاجز گنہگار اور خطاکار بندے کی کیا حیثیت اور وقعت کہ آپؐ کی شان اقدس کے مطابق کچھ لکھ سکیں۔ آپؐ تمام جہانوں کے لیے رحمت بھی ہیں اور رحمتوں کا جہان بھی ، آپؐ علم کی کائنات بھی ہیں اور کائنات کا علم بھی ، آپ کائنات میں کُل بھی ہیں اور کُل کی کائنات بھی ، ہماری سوچ محدود ہوسکتی ہے مگر آپؐ کی رحمت لامحدود ہے اللہ رب العزت کی صفات کی عملی صورت میرے نبیؐ کی سیرت ہے بےشک انسان کو انسانیت کی حقیقت کا ادراک آپؐ کی ولادت سے نصیب ہوا جس کے دل میں آقا حضور ﷺ کی محبت کا ایک پھول کھل جاۓ اس کی پوری زندگی میں بہار آجاتی ہے آقا حضور ﷺ کی محبت بھی نصیب والوں کو نصیب ہوتی ہے اور جن کو نصیب ہوجاۓ ان کے نصیب جاگ جاتے ہیں۔
بے شک کوئی بھی مسلمان چاہے کتنے ہی کمزور عقیدے کا کیوں نا ہو مگر اس کے لیے آقا حضور ﷺ کی محبت اور عقیدت عین ایمان کی حیثیت رکھتی ہے اور یہی بات باطل اور غیر مسلم قوتوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامو فوبیا کے شکار مغرب میں آئے روز آقا حضور ﷺ کی توہین کر کے مسلمانوں کی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے اس بار فرانس حکومت کی سرپرستی میں یہ ناپاک جسارت کی جارہی ہے اس کی جتنی بھی مزمت کی جاۓ کم ہے یقینا” اس سے 56 اسلامی ملکوں ، او آئی سی عرب لیگ اور تمام مسلم حکمرانوں کی بے حسی بھی واضح ہوتی ہے اور یہ تمام مسلم رہنماؤں کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے اغیار اور باطل قوتیں آزادی اظہار کے نام اپنی اندر کی غلاظت کا جس حد تک بھی مظاہرہ کریں مگر وہ ہمارے دلوں سے آقا حضور ﷺ کی محبت اور عقیدت ختم نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا عقیدہ ہی عقیدت مصطفٰیؐ ہے۔ اور ہمارا ایمان بھی عقیدت مصطفٰیؐ ہے۔
مظہر اقبال کھوکھر
03007785530